1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سرد جنگ کے بعد نیٹو کی سب سے بڑی فوجی مشقیں شروع

14 مارچ 2022

سرد جنگ کے بعد نیٹو کی سب سے بڑی فوجی مشقوں میں سے ایک کے موقع پر برطانوی وزیر اعظم روس کے ہمسایہ بالٹک اور اسکینڈنیویائی ملکوں کے رہنماوں کے ساتھ سربراہی اجلاس منعقد کررہے ہیں۔ یہ فوجی مشقیں چودہ مارچ سے شروع ہورہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/48QcG
Ukraine-Konflikt - Russisch-Belarussische Militärübung
تصویر: Russian Defense Ministry Press Service/AP/dpa/picture alliance

ان فوجی مشقوں کو 'کولڈ ریسپانس ایکسرسائز' کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں نیٹو کے 27 رکن ممالک کے 30000 سے زائد فوجی منفی درجہ حرارت میں تربیت حاصل کریں گے۔

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کی سرکاری رہائش گاہ 10ڈاوننگ اسٹریٹ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فوجی مشقوں کے دوران ہی وزیر اعظم منگل کے روز 'جوائنٹ ایکسپیڈیشنری فورس' (جے ای ایف) کے رہنماوں سے ملاقات کریں گے، جو دس ممالک پر مشتمل شمالی یورپ میں سکیورٹی اتحاد ہے۔

جانسن نے اپنے بیان میں کہا، "روس کے یوکرین پر حملے سے یورپی سلامتی متزلزل ہوگئی ہے اور ہم اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کریں گے کہ ہم پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور متحد ہوکر ابھریں۔"

برطانوی وزیر اعظم نے مزید کہا، "روسی صدر ولادمیر پوٹن کی دھمکیوں کے خلاف ہماری مزاحمت کو یقینی بنانے اور فوجی لحاظ سے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی توانائی کی فراہمی، اپنی معیشت اور اپنی قدروں کو روسی مداخلت سے محفو ظ رکھیں۔"

جے ای ایف کا قیام سن 2012 میں عمل میں آیا تھا۔ اس اتحاد کے ممالک برطانوی قیادت میں فوجی مشقیں کررہے ہیں تاکہ روس کی سرحد سے متصل اسٹریٹیجک علاقوں میں نقل و حرکت کی آزادی کو یقینی بنایا جاسکے۔

Ukraine Russland Konflikt | Wladimir Putin
تصویر: Kremlin Pool Photo/Sputnik/AP Photo/picture alliance

روس اور یوکرین میں مذاکرات کا نیا دور

روس اور یوکرین پیر کے روز ایک بار پھر بات چیت کررہے ہیں۔

یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کے مشیر اور مذاکراتی ٹیم کے رکن میخائلو پوڈولیاک نے بتایا کہ بات چیت ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ ہوگی۔

روسی صدر کے ترجمان دیمتری پسیکوف نے بھی ایک ٹوئٹ کرکے ذریعہ بات چیت کے نئے دور کی تصدیق کی۔

بات چیت کے نئے دور سے ایک بار پھر جنگ بندی کی امیدیں پیدا ہوگئی ہیں۔ پوڈولیاک کا کہنا تھا کہ روس کو اب عالمی رائے عامہ کا خاطر خواہ احساس ہوگیا ہے۔ اسے میدان جنگ میں یوکرین کی صلاحیتیوں کا اندازہ ہوگیا ہے اور اپنے مفادات کی حفاظت کرنے کے لحا ظ سے بھی یوکرین کے اقدامات کا پتہ چل گیا ہے۔

دریں اثنا یوکرینی فوج کا کہنا ہے کہ روسی فوج نئے حملو ں کی تیاریاں کررہی ہے۔ اس کے مدنظر اگلی صف کے شہروں سے لوگوں کو انسانی راہداریوں کے ذریعہ محفوظ مقامات پر پہنچایا جارہا ہے۔

China Militär l 9. World Radar Expo in Nanjing
تصویر: Dongxu Fang/Costfoto/picture alliance

روس نے چین سے فوجی امداد طلب کی ہے، امریکہ

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ماسکو نے یوکرین کے خلاف 24 فروری کو فوجی کارروائی شروع کرنے کے بعد بیجنگ سے فوجی ساز و سامان فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔

دوسری طرف واشنگٹن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان لی پینگیو نے کہا،"میں نے اس طرح کی کوئی بات کبھی نہیں سنی۔"  پینگیو نے مزید کہا کہ یوکرین میں صورت حال یقیناً ''پریشان کن" ہے اور "اس میں اضافہ یا حتی کہ کنٹرول سے باہرہوجانے" کو روکنا چین کی ترجیح ہے۔

امریکی حکام کے حوالے سے امریکہ کے متعدد اخبارات میں یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب وائٹ ہاوس نے چند گھنٹے قبل ہی بیجنگ کو سخت نتائج کی دھمکی دی تھی۔ وائٹ ہاوس نے کہا تھا کہ اگر بیجنگ نے ماسکو کو اس کے خلاف عائد پابندیوں سے نکالنے میں مدد کی تو اس کو سخت نتائج بھگتنے پڑیں گے۔

اس سے قبل وائٹ ہاوس نے ایک بیان میں کہا کہ صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو مزید فوجی امداد کی منظوری دے دی ہے۔ اور یوکرین کو 20 کروڑ ڈالر مالیت کے ہتھیار دینے کے لیے کوششیں تیز کی جارہی ہیں۔

دریں اثنا امریکی اور چینی سفارت کاروں کی آج پیر کے روز روم میں ملاقات ہونے والی ہے۔

ج ا/ ص ز  (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں