سانحہ بادامی باغ، سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کا ذریعہ
11 مارچ 2013پاکستان کی سپریم کورٹ نے سانحہ بادامی باغ کے حوالے سے پنجاب حکومت کی رپورٹ کو یہ کہ کر مسترد کر دیا ہے کہ اس میں اس سانحے کی وجوہات اورذمہ داران کے خلاف کارروائی کا ذکر تک موجود نہیں ہے۔
آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت پر انتہا پسند تنظیموں کے خلاف مؤثر کارروائی نہ کرنے کے الزامات میں تیزی آ گئی ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کے مطابق اگر پنجاب حکومت نے سانحہ گوجرہ میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کی ہوتی توسانحہ بادامی باغ وقوع پذیر نہ ہوتا۔
دوسری طرف پنجاب حکومت کے ترجمان پرویز رشید کا کہنا ہے کہ وفاقی حکومت کی طرف سے پنجاب حکومت پر دہشت گردوں کی حمایت کے الزامات لگانا دہشت گردی کے خلاف قوم کے متحدہ محاذ کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے اور اس کا فائدہ دہشت گردوں کو ہو رہا ہے۔
پرویز رشید کے مطابق سانحہ بادامی باغ دراصل دو افراد کے باہمی جھگڑے کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوا اور اس جھگڑے کے بعد افواہیں پھیلا کر پرتشدد واقعات کروائے گئے۔
ادھر پاکستان مسلم لیگ قاف کے اقلیتی ونگ کے سربراہ اور وفاقی وزیر مملکت اکرم مسیح گِل نے مسلم لیگ نون کے دعووں کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ پنجاب پولیس کی نگرانی میں بادامی باغ میں مسیحوں کے گھر جلائے گئے۔ ان کے بقول سانحہ گوجرہ میں عدالتی کمیشن کی طرف سے جن سرکاری افسران کے خلاف کاروائی کی سفارش کی گئی تھی، انہیں پنجاب حکومت نے ترقیاں دے دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ سانحہ گوجرہ میں ملوث افراد کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کوٹ لکھپت چرچ کے پادری فادر فرانسس صابر نے احتجاج کرنے والے مسیحی نوجوانوں کے خلاف پنجاب پولیس کی کارروائی کی شدید مذمت کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ لاہور میں جاری اس صورتحال کی وجہ سے ایسٹر کی عبادات متاثر ہو سکتی ہیں۔
نیشنل کونسل فار انٹرفیتھ ڈائیلاگ کے رابطہ کار فادر فرانسس ندیم نے کہا کہ سیاست دانوں اور مذہبی رہنماوں کو معاشرے میں اقلیتوں کے خلاف متعصبانہ رویوں کے خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔
سانحہ بادامی باغ میں مبینہ طور پر ملوث 35 افراد کوسوموار کے روز انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ عدالت نے اس واقعے میں نامزد 14 افراد کو چار دن کے ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا جبکہ 21 افراد کو شناخت کے لیے جیل بجھوا دیا گیا ہے۔ لاہور پولیس نے اس سانحے کے حوالے سے دو سو افراد کو حراست میں لے رکھا ہے۔
ادھر بادامی باغ کی جوزف کالونی میں متاثرہ مسیحی برادری کے مکانات کی تعمیرتیزی سے جاری ہے جبکہ متاثرین کو نقد رقوم کی فراہمی بھی کی جا رہی ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ زہرہ یوسف کے مطابق متاثرہ مسیحوں کے مکانات کی تعمیر اور ان میں امدادی رقوم کی تقسیم اس مسئلے کا مستقل حل نہیں ہے۔ ان کے بقول اس کے لیے معاشرے میں برداشت کا جذبہ پیدا کرنے اور دہشت گردی کے شکاراقلیتی افراد کو انصاف فراہم کرناضروری ہوگا۔
رپورٹ: تنویر شہزاد،لاہور
ادارت: افسر اعوان