1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافریقہ

ساحل خطے میں غلامی کی اذیت

23 اگست 2020

افریقہ کے ساحل خطے میں انسانوں کی خرید و فروخت عرصہ دراز سے جاری ہے۔ 1981ء سے غلامی پر پابندی عائد ہے لیکن قانونی کارروائی نہ ہونے کی وجہ سے یہ اذیت ابھی تک ختم نہ ہوسکی۔ متعدد انسان آج بھی غلامی کا شکار بن رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3hMds
Senegal Ausbeutung von Koranschülern - Talibes
تصویر: Reuters/Z. Bensemra

ماٹالا اولد مبوئرک نے غلامی میں ہوش سنبھالا تھا۔ آج وہ شمال مغربی افریقہ کے ایک اسلامی ملک موریطانیہ کے دارالحکومت نوواکشوط کے نواحی علاقے میں رہتے ہیں۔ تیس برس تک سخت غلامی برداشت کرنے کے بعد ایک غیر سرکاری تنظیم کی مدد سے ان کو اپنے 'آقا‘ سے آخرکار آزادی مل گئی۔ غلامی کی تلخ یادیں مبوئرک کا ابھی تک پیچھا نہیں چھوڑ رہیں۔ ان کے بقول، ''وہ بہت دردناک لمحات تھے، میرا آقا میری آنکھوں کے سامنے میری ماں اور بہن کو مارتا پیٹتا اور ان کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتا تھا۔‘‘

یہ بھی پڑھیے:جدید غلامی کے شکار کروڑوں انسان، کن ممالک میں سب سے زیادہ

موریطانیہ نے سن 1981 میں غلامی پر پابندی عائد کی تھی، کیونکہ وہ دنیا کا واحد ایسا ملک رہ گیا تھا جہاں انسانوں کو بطور غلام رکھنا غیر قانونی عمل نہیں تھا۔ غیر سرکاری تنظیموں کے اندازوں کے مطابق وہاں ہزاروں افراد آج بھی غلامی کے چنگل میں پھنسے ہیں۔ ان غلاموں میں زیادہ تر حراطین اقلیت یا پھر افرو موریطانی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد شامل ہیں، جن کو جبری مزدوری، گھریلو ملازمین یا پھر نو عمر دلہنوں کےطور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

Bildergalerie Sklaverei in Mauretanien
نسل در نسل غلامیتصویر: Robert Asher

اس شمال مغربی افریقی ریاست میں غلامی کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انسداد غلامی کے لیے سرگرم عمل تنظیم اینٹی سلیوری انٹرنیشنل کی رکن سارہ میتھیوسن نے بتایا کہ یہاں نسل در نسل غلامی کا سلسلہ جاری ہے، اکثر سیاہ فام لوگوں کو غلام بنا کر رکھا جاتا ہے۔

مزیر پڑھیے: پاکستان: ’بچے اور خواتین مزدور جدید غلامی کی مثال‘

سارا میتھیوسن نے غلامی کے نئے طریقہٴ کار کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے بتایا کہ بچوں کو بھیک مانگنے پر بھی مجبور کیا جاتا ہے۔ ان کے بقول، ''اگر ایک فیملی کے دو سے زائد بچوں کو بھینک مانگنے کے لیے بھیجا جاتا ہے اور فی بچہ ایک یورو بھی حاصل کر کے لاتا ہے، تو ان کے لیے یہ ایک منافع بخش کاروبار ہے۔‘‘

Afrika Mauretanien Proteste gegen Sklaverei
’غلامی نامنظور‘: سن 2015 میں نواکشوط کے ایک احتجاجی مظاہرے کا ایک بینرتصویر: Getty Images/AFP/Stringer

میتھیوسن نے مزید بتایا، ''اسی طرح لڑکیوں اور بچوں کو امیر گھرانوں میں گھر کا کام کرنے کے لیے بھی بھیجا جاتا ہے، جس کو کنٹرول کرنا مشکل ہے اور اکثر اوقات یہ بچے زیادتی کا نشانہ بنتے ہیں۔‘‘

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او)  کے مطابق براعظم افریقہ کے سب صحارا خطے میں 3.7 ملین افراد غلامی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:’کہیں بچے کا گردہ بیچنا نہ پڑجائے‘

مغربی افریقی ملک نائجر میں صورتحال زیادہ مختلف نہیں ہے۔ نائجر حکومت نے انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطالبہ کے بعد سن 2003 میں غلامی کو ایک مجرمانہ عمل قرار دیا لیکن حکومت اس کے نفاذ کو عملی طور پر ممکن نہیں بنا سکی ہے۔

مارٹینا شکووسکی / ع آ / ع ح

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں