1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرنب مکھرجی کی ہندو قوم پرست جماعت کی تقریب میں شرکت

جاوید اختر، نئی دہلی
7 جون 2018

بھارت میں پہلی مرتبہ کسی سابق صدرنے آج ہندو قوم پرست جماعت راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی تقریب میں شرکت کی۔ سابق صدر اور کانگریس کے سینیئر ترین رہنما پرنب مکھرجی کی تقریب میں شرکت نے ایک نئے تناز عے کو جنم دے دیا۔

https://p.dw.com/p/2z6MA
Indien Nagpur -  Pranab Mukherjee bei RSS Event
تصویر: picture-alliance/AP Photo

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس )کے ہیڈکوارٹرز ناگپور میں منعقدہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر پرنب مکھرجی نے کہا کہ وہ قوم، قوم پرستی اور حب الوطنی کے بارے میں سمجھانے کے لیے یہاں آئے ہیں۔ وہ آر ایس ایس کے کارکن کے طورپر نہیں بلکہ ایک مہمان کے طور یہاں آئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تعمیر میں تمام لوگوں کا رول ہے اور ہم تکثیریت کا احترام کرتے ہیں۔
اس تقریب میں پرنب مکھرجی کے شرکت کے اعلان کے بعد سے ہی تنازعہ شروع ہوگیا تھا۔ آج پورے ملک کی نگاہیں اس بات پر لگی تھیں کہ زندگی بھر آر ایس ایس کے نظریات کی مخالفت کرنے والا ایک سیاسی رہنما اسی کے گھر میں جاکر کیا کہتا ہے۔ یہ تقریب آر ایس ایس کے تربیتی کیمپ سے تین سالہ تربیت حاصل کرنے کے بعد پاس آؤٹ کرنے والوں کے لیے منعقد کی گئی تھی۔ تین سالہ تربیتی کورس مکمل کرنے کے بعد یہ ’پرچارک‘ یا مبلغ کے طور پر ہندو قوم پرستی کی تبلیغ کے لیے ہمہ وقتی کارکن کے طور پر کام کریں گے۔ موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی ابتدا میں آر ایس ایس کے پرچارک کے طورپر کام کیا تھا۔
آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے پرنب مکھرجی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان کو مدعوکرنے پر تنازع مناسب نہیں ہے۔ ہندو قوم پرست تنظیم کے سربراہ نے کہا کہ اس ملک میں کوئی بھی شہری ان کے لیے پرایا نہیں: ’’بھارت کی دھرتی پر پیدا ہونے والا ہر شخص بھارت کا بیٹا ہے اور کثرت میں وحدت بھارت کی صدیوں پرانی روایت رہی ہے ۔‘‘
کانگریس پارٹی نے آر ایس ایس کی تقریب میں پرنب مکھرجی کی شرکت پر اپنے پہلے ردعمل میں کہا، ’’بھارت کے ہر شہر ی کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آر ایس ایس کی تاریخ کیا رہی ہے اور یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ وہ آج کیا سوچتی ہے۔ بھارت کے عوام یہ کبھی نہیں بھول سکتے کہ اس کے نظریات کتنے متضاد اور آئیڈیا آف انڈیا کے خلاف رہے ہیں۔‘‘
سابق مرکزی وزیر او رکانگریس کے سینیئر رہنما آنند شرمانے اپنے ایک ٹوئیٹ میں کہا، ’’بزرگ رہنما اور نظریہ ساز پرنب دا (مکھرجی) کے آر ایس ایس ہیڈکوارٹرز میں شرکت سے کانگریسی کارکنان اور تکثیریت، گونا گونی اور بھارتی جمہوریت کی بنیادی قدروں میں یقین رکھنے والے لاکھوں افراد ناراض ہیں۔ بات چیت صرف ان سے ہوسکتی ہے جو سننا، اس پر غور کرنا اور خود کو بدلنا چاہتے ہیں۔ ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی جس سے یہ قیاس کیا جاسکے کہ آر ایس ایس اپنے بنیادی ایجنڈے سے ہٹنے کے لیے تیار ہے بلکہ وہ اس کا قانونی جواز حاصل کرنا چاہتی ہے۔‘‘

پرنب مکھرجی کی بیٹی اور کانگریس کی رہنما شرمشٹھا مکھرجی نے بھی اپنے والد کو آر ایس ایس کے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ انہوں نے اپنے والد کو خط لکھ کر کہا تھا، ’’آپ آر ایس ایس کو جھوٹی کہانیاں گڑھنے کا موقع دے رہے ہیں۔ آپ کی تقریر تو بھلا دی جائے گی لیکن آپ کی تصویریں سنبھال کر رکھی جائیں گی اور انہیں حسب ضرورت استعمال کیا جائے گا۔‘‘
آر ایس ایس کا دعویٰ ہے کہ پرنب مکھرجی جیسے قومی رہنماؤں کی اس کے کیمپ میں شرکت کوئی نئی بات نہیں ہے۔ حتٰی کہ گاندھی جی بھی ایک مرتبہ اس کے پروگرام میں شریک ہوئے تھے۔
دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے تاہم کہا کہ گاندھی جی اور دیگر رہنماؤں کے آر ایس ایس کے کیمپ میں شرکت کرنے اور اس کے پروگراموں سے متاثر ہونے کا آر ایس ایس کادعویٰ گمراہ کن اور اصل حقائق کے برخلاف ہے۔ گاندھی جی کا آر ایس ایس کے پروگراموں سے متاثر ہونا تو دور ، اس بات کابھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ آرایس ایس کے لوگوں نے گاندھی جی کی باتوں کو قابل توجہ بھی سمجھا ہو ۔ پروفیسر اپوروانند کا کہنا تھا، ’’گاندھی جی کے سیکرٹری اور ان کے سوانح نگار پیارے لال کے مطابق جب کچھ لوگوں نے آر ایس ایس کے کارکنوں کے اندر ڈسپلن، صلاحیت، جرأت اور ہمت اور سخت محنت جیسی صلاحیت کے بارے میں گاندھی کے سامنے تعریف کی تو گاندھی جی نے یہ کہہ کر انہیں خاموش کردیا تھا کہ یہ مت بھولو کے ہٹلر کے نازیوں اور میسولینی کے فاشسٹوں میں بھی ایسی صلاحیتیں پائی جاتی تھیں۔‘‘ پروفیسر اپوروانند کا کہنا ہے کہ آر ایس ایس اقلیتوں کو درکنار کر کے بھارت میں ایک ہندو راشٹر قائم کرنے کے اپنے ایجنڈے پر پوری سرگرمی سے کام کررہی ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1925میں قائم  ہونے والی تنظیم آر ایس ایس نے بھارت کی تحریک آزادی میں نہ تو حصہ لیا، نہ ہی انقلابی لیڈروں کے ساتھ اس کا کوئی تعلق رہا اور نہ ہی 1942میں برطانوی حکومت کے خلاف ’بھارت چھوڑو‘ جیسی اہم تحریک میں اس کا کوئی رول نظر آتا ہے۔ اس کے برخلاف آزادی کے وقت اس نے قومی پرچم کی مخالفت کی اورکئی دہائیوں تک اپنے ہیڈکوارٹرز میں یوم آزادی اور یوم جمہوریہ جیسی تقاریب میں بھی قومی پرچم لہرانے سے گریز کیا۔ آرایس ایس پر اب تک تین مرتبہ پابندی عائد ہوچکی ہے۔ پہلی مرتبہ 1948میں جب گاندھی جی کا قتل کردیا گیا تھا۔ دوسری مرتبہ پابندی1975میں ایمرجنسی کے دوران اور تیسری مرتبہ 1993میں بابری مسجد کے انہدام کے بعد عائد کی گئی۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پرنب مکھرجی کی شرکت کوآر ایس ایس اپنے لیے ایک بڑی کامیابی قراردے سکتی ہے۔ کیونکہ زندگی بھرآر ایس ایس کے نظریات اور طریقہ کار پر سوال اٹھانے والا ایک سیاسی رہنما نے آج اسی کے ہیڈکوارٹر میں پہنچ کر نہ صرف تقریر کی بلکہ اس کے رہنماؤں کے ساتھ ضیافت میں بھی حصہ لیا۔ اس سے آر ایس ایس کو اپنے نظریات کو عوام میں فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

Präsident Indien Pranab Mukherjee
سابق صدر پرنب مکھرجی نے کہا کہ وہ قوم، قوم پرستی اور حب الوطنی کے بارے میں سمجھانے کے لیے اس ایونٹ میں آئے ہیں۔تصویر: picture-alliance/dpa