1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ڈنمارک سے شامی مہاجرکی ملک بدری

18 اپریل 2021

’زیرو ازائلم سیکرز‘: ڈنمارک حکومت کا اصل ہدف ہے۔ اب ڈینش حکومت نے تمام شامی مہاجرین کو واپس شام بھیجنے کا حکم دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3rwdV
Dänemark Padborg Bahnhof Flüchtlinge
تصویر: Reuters/Scanpix/A. Ladime

آیا ابو داہر نے ڈنمارک کے شہر نیبُرگ سے ابھی حال ہی میں ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی اور وہ جون میں اپنے دوستوں کے ساتھ اس کی خوشی منانے کی تیاریاں کر رہا تھا کہ اُسے حکام کی جانب سے ایک ای میل موصول ہوئی، جس سے اُس کے سارے خواب چکنا چور ہو کر رہ گئے۔ ای میل اس شامی طالبعلم اور اُس کے والدین کو لکھی گئی، جس میں یہ درج تھا کہ ان سب کا رہائشی اجازت نامے کی مزید توسیع نہیں کی جائے گی۔ بیس سالہ آیا ابو داہر کہتا ہے،'' میں بہت افسردہ تھا، میں خود کو غیر ملکی محسوس کرنے لگا۔ مجھے ایسا لگا کہ ڈنمارک میں مجھ سے ہر چیز چھین لی گئی۔ میں بس بیٹھ کر روتا رہا۔ میں سو بھی نہیں سکتا تھا۔ میرے ایک دوست نے اپنی گاڑی سے مجھے میری فیملی کے پاس پہنچایا۔‘‘ 

دمشق کے بہت سے شامی مہاجرین کو ایسی ہی میل موصول ہوئی۔

نو سالہ لڑکا کشتی میں مر گیا تو لاش سمندر میں پھینک دی گئی

Dänemark Passkontrolle Grenze
ڈنمارک پولیس پاسپورٹ کنٹرول کرتے ہوئے۔تصویر: S. Gallup/Getty Images

'جنگ کبھی ختم نہیں ہوئی، نہ ہی بھلائی گئی

جب ڈنمارک حکام نے گزشتہ موسم گرما میں شامی دارالحکومت کو محفوظ شہروں کی فہرست شامل کیا تھا، تب سے  ڈنمارک میں سینکڑوں شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یا  ان کی توسیع نہیں کی گئی۔ ڈینش مہاجرین کونسل ' ڈی آر سی‘ کی سکریٹری جنرل شارلوٹے سلینٹے کہتی ہیں،'' گرچہ شام میں نہ تو جنگ ختم ہوئی ہے نہ ہی اسے فراموش کیا گیا ہے، لیکن ڈنمارک کے حکام کا خیال ہے کہ دمشق میں حالات اتنے اچھے ہیں کہ شامی مہاجرین کو اب واپس بھیجا جا سکتا ہے۔‘‘ ڈنمارک یورپ کا واحد ملک ہے جس نے شامی باشندوں کے رہائشی اجازت نامے منسوخ کیے ہیں۔

بے سہارا بچے بیدخل نہ کیے جائیں، یورپی عدالتِ انصاف

سلینٹے کے بقول،'' یہ فیصلہ غیر ذمہ دارانہ ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ شامی باشندوں کو وطن واپسی پر سنگین حملوں اور ظلم و ستم کے خطرات لاحق ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا،'' محض اس وجہ سے کہ دمشق میں جنگ نہیں ہو رہی ہے، اس شہر کو محفوظ سمجھنا غلط خیال ہے۔‘‘

 

Deutschland Dänemark Grenze bei Padborg Flüchtlinge aus Syrien
ڈنمارک میں شامی مہاجرین در بدر۔تصویر: Getty Images/S. Gallup

 ڈنمارک اور شام کا آپس میں کوئی تعاون نہیں

انسانی حقوق کی تنظیمیں جیسے کہ ڈی آر سی اور ایمنسٹی انٹر نیشنل کے ساتھ ساتھ ڈنمارک کی بائیں بازو کی جماعتوں کی طرف سے بھی ڈینش حکام کے اس رویے کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ سوشل لبرل پارٹی کے انضمام کی پالیسی کے ایک ترجمان ' کرسٹیان ہیگارڈ نے اپنے فیس بُک پر تحریر کیا،'' ڈنمارک نے شام میں عدم استحکام اور سکیورٹی کی صورتحال کے پیش نظر اپنا سفارتخانہ وہاں بند کر دیا، اب وہ شام کو محفوظ ملک کیسے قرار دے سکتا ہے۔‘‘ کرسٹیان کے بقول آیا ابو داہر جیسے طالبعلموں کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ سنگدلی اور غیر معقول بات ہے۔

جرمنی میں پناہ گزینوں کی آباد کاری کورونا کے سبب روک دی گئی

چونکہ ڈنمارک شامی صدر بشار الاسد حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کرتا لہذا اس وقت شامی باشندوں کی ملک بدری زبردستی نہیں کی جا سکتی۔ یہ موقف ہے بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کا۔ جو شامی باشندے رضا کارانہ طور پر ملک بدر ہونے کے لیے تیار نہیں ہوتے انہیں' ڈپورٹیشین کیمپوں‘ یا ملک بدری مراکز میں پہنچا دیا جاتا ہے۔ ڈینش مہاجرین کونسل ' ڈی آر سی‘ کی سکریٹری جنرل شارلوٹے سلینٹے نے شامی مہاجرین کے حق میں آواز بلند کرتے ہوئے کہا،'' انہیں تعلیم حاصل کرنے اور معاشرے میں کام کرنے اور تعاون کرنے دیا جائے۔‘‘

جولیا ویشنباخ/  ک م/ ع ا