رکبان مہاجر کيمپ: بے بسی و بد حالی ميں زندگی گزارتے مہاجرين
25 اکتوبر 2018شامی تارک وطن ابو نشوان نے حمص ميں لڑائی شروع ہونے کے بعد تقريباً تين برس قبل اپنا آبائی علاقہ چھوڑا تھا۔ اس وقت سے وہ رکبان نامی مہاجر کيمپ ميں پناہ ليا ہوا ہے جو شام اور اردن کی سرحد پر صحرا ميں واقع ہے۔ اپنے اہل خانہ کے ساتھ رہنے والا يہ مہاجر بتاتا ہے، ’ہم نے اس کا نام موت کا کيمپ رکھ ديا ہے۔‘‘ نشوان کے بقول اس کی اور اس کے اہل خانہ کی آمد کے بعد سے کيمپ کے حالات مسلسل بگڑے ہيں اور نوبت يہاں تک آن پہنچی ہے کہ اس ماہ کے اوائل ميں اڑتاليس گھنٹوں ميں دو نومولود بچوں کی موت واقع ہو گئی۔ چار ماہ کی ايک بچی خون ميں زہر پھيلنے کی وجہ س ہلاک ہو گئی جبکہ صرف پانچ دن کا ايک بچہ خون ميں زہر پھيلنے اور خوراک کی شديد قلت کے سبب اپنی جان سے ہاتھ دھو بيٹھا۔
دونوں بچوں کو مناسب طبی سہوليات فراہم نہ ہو سکيں اور شايد يہی صورتحال ان کی موت کا سبب بنی تاہم ان اموات نے رکبان نامی مہاجر کيمپ کے حالات کی نشاندہی ميں مدد ضرور کی اور اب باقاعدہ اس بارے ميں بات چيت ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی اپيل کے بعد رکبان کے ليے انسانی بنيادوں پر امداد کا بندوبست کیا جا رہا ہے اور امکاناً آئندہ چند ايام ميں يہ ممکن ہو سکے گا۔
عنقريب موسم سرما شروع ہونے کو ہے اور کيمپ ميں کسی طبی مرکز کا کوئی انتظام نہيں۔ بيماری کی صورت ميں رہائشيوں کو اردن جانا پڑتا ہے۔ يہ کافی مشکل کام ہے کيونکہ پچھلے دو سال سے بارڈر بند ہے۔ علاوہ ازيں کيمپ ميں اسمگل کر کے لائی جانی والی اشياء انتہائی مہنگے داموں فروخت کی جاتی ہيں۔ اکثر لوگ ان بنيادی اشياء کو خريدنے کی حيثيت نہيں رکھتے۔ ابو نشوان کے مطابق تقريباً پچانوے فيصد رہائشی يہ چيزيں خريد ہی نہيں سکتے۔ وہاں نصب جنريٹرز چند گھٹنوں کے ليے تو بجلی فراہم کرتے ہيں ليکن دن کے زيادہ تر حصے ميں يہ سہولت بھی ميسر نہيں۔
ع س / ع ت، نيوز ايجنسياں