روہنگيا مسلمانوں پر مظالم ’انسانيت کے خلاف جرائم‘
4 اکتوبر 2017ميانمار کی رياست راکھين ميں سالہا سال سے بسنے والے روہنگيا مسلمانوں کے مبينہ قتل عام، جنسی زيادتی کے بے شمار واقعات اور انسانی حقوق کی سنگين خلاف وزرياں ’انسانيت کے خلاف جرائم‘ کے زُمرے ميں آ سکتے ہيں۔ يہ بات عورتوں اور بچوں کے حقوق کی نگران اقوام متحدہ کی ايک ذيلی کميٹی کے تحريری بيان ميں بدھ چار اکتوبر کے زور بتائی گئی ہے۔ بيان ميں لکھا ہے، ’’ہم بالخصوص روہنگيا عورتوں اور بچوں کے حوالے سے فکر مند ہيں، جنہيں انسانی حقوق کی سنگين خلاف ورزيوں، قتل، جبری گمشدگيوں اور جنسی زيادتی جيسے مسائل کا سامنا ہے۔‘‘
اقوام متحدہ ميں انسانی حقوق کے ادارے کے سربراہ زيد رعد الحسين شمالی راکھين رياست ميں جاری اقدامات کو ’نسل کشی‘ کی ’کتابی مثال‘ سے تعبير کر چکے ہيں۔ پچھلے پانچ ہفتوں کے دوران لگ بھگ پانچ لاکھ روہنگيا مسلم کميونٹی کے ارکان راکھين سے فرار ہو کر پناہ کے ليے بنگلہ ديش پہنچ چکے ہيں۔ اکثريتی پناہ گزين حکومتی فورسز پر قتل عام، ديہاتوں کو نذر آتش کر دينے، جنسی زيادتی اور مظالم کے الزامات لگاتے ہيں۔ ميانمار حکومت ايسے تمام تر الزامات رد کرتی آئی ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ صرف جنگجوؤں کے خلاف کارروائی جاری ہے۔
دريں اثناء انسانی حقوق کے ليے بين الاقوامی سطح پر کام کرنے والے نيو يارک ميں قائم ايک ادارے ہيومن رائٹس واچ کی جانب سے بھی بدھ چار اکتوبر کو ہی يہ کہا گيا ہے کہ ميانمار کے سرکاری دستے قتل عام، پر تشدد کارروائيوں اور آتش زدگی کے واقعات ميں ملوث ہيں اور ان کا نشانہ روہنگيا مسلمان ہيں۔ ادارے کے مطابق کئی ديہات سے فرار ہونے والی عورتوں نے فوجيوں پر جنسی زيادتی کے الزامات بھی لگائے ہيں۔ ہيومن رائٹس واچ ميں ايشيا کے ڈپٹی ڈائريکٹر فل رابرٹسن نے کہا، ’’ان مظالم کو روکنے کے ليے محض الفاظ سے زيادہ کچھ درکار ہے۔‘‘ ان کے ادارے نے اقوام متحدہ کی سکيورٹی کونسل سے مطالبہ کيا ہے کہ نہ صرف ميانمار کو ہتھياروں کی فروخت روکی جائے بلکہ مظالم کے ذمہ دار فوجی افسران کے خلاف سفری پابندياں عائد کی جائيں اور ان کے اثاثوں کو منجمد کيا جائے۔