رومان پرور دریائے رائن، فطرت اور فن
رائن کے کناروں پر اتنا حسن؟ اس سوال کا جواب 18 ویں اور 19 ویں صدی میں قدرتی ماحول کے محققین تلاش کرتے رہے۔ وہ جوق در جوق جرمنی کے اس خوبصورت ترین دریا کی سیر و تفریح کو آیا کرتے تھے، تصاویر بناتے تھے اور شاعری کرتے تھے۔
پُر کشش تفریحی مقام
اُنیس ویں صدی میں رائن ایک مقناطیس کی طرح مصوروں، شاعروں اور قدرتی ماحول کے محققین کو اپنی طرف کھینچتا تھا۔ اس دریا کے دونوں کناروں پر موجود چٹانیں، قدرتی ماحول، قلعے، گہری وادیاں اور اونچے پہاڑ آنکھوں کو خیرہ کر دیتے تھے۔ آنٹون ڈیٹسلر کی 1820ء اور 1830ء کے درمیان بنائی گئی اس تصویر ’ناساؤ کا نظارہ‘ میں ایک پُر امن دنیا کی تصویر کشی کی گئی ہے۔
پہل ولندیزیوں نے کی
رائن کو دریافت کرنے کا سلسلہ 18 ویں صدی سے شروع ہو گیا تھا لیکن اس دریا پر کھنچے چلے آنے کا سلسلہ جرمنوں نے نہیں بلکہ سفر کے دلدادہ ولندیزی مصوروں نے شروع کیا، جو بالخصوص پیسہ کمانے کے لیے اس دریا کا رخ کیا کرتے تھے۔ انہیں ایمسٹرڈم کے وہ جغرافیہ دان بھیجتے تھے، جو مختلف مقامات کی درست تصویر کشی کے خواہاں تھے۔ انہی میں Herman Saftleven بھی شامل تھے، جنہوں نے اس منظر کو کینوس پر محفوظ کیا۔
سنہری کرنوں سے سجے کنارے
جرمن مصور کرسٹیان گیورگ شُٹس سینئر کو ہالینڈ کے Saftleven ہی کی طرز پر رائن کے مناظر محفوظ کرنے کا کام سونپا گیا۔ فرینکفرٹ کے اس مصور کی تصویر سے پتہ چلتا ہے کہ رائن کے لیے پسندیدگی بتدریج قدرتی ماحول کے لیے پسندیدگی میں بدلتی چلی گئی۔ اس تصویر میں رائن اور اُس کے کنارے کا قدرتی ماحول بے پناہ دلکشی، گرم جوشی اور احساسِ قربت لیے ہوئے ہے۔
رائن کے سفر نامے
رائن کا وسطی حصہ اس علاقے کے ابتدائی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا۔ اٹھارویں صدی میں اُس دور کے بے شمار امراء نے رائن کا سفر اختیار کیا۔ اُن میں سے زیادہ تر اس خطے کی خوبصورتی سے بیرن یوہان اساک فان گیئرنگ کے ذریعے واقف ہوئے، جنہوں نے مائنز سے کولون تک کے سفر کی روداد اتنے دلکش انداز میں قلم بندی کی کہ اُن کا سفر نامہ ہاتھوں ہاتھ بکا اور اُس کے انگریزی اور ہسپانوی میں تراجم بھی ہوئے۔
تمام تر جزیات کے ساتھ تصویر کشی
آبی رنگوں سے بنائی گئی یہ تصویر کرسٹیان گیورگ شُٹس جونیئر کی تخلیق ہے، جنہوں نے فان گیئرنگ کے مشہور سفر نامے کے لیے تصاویر بنائی تھیں۔ اس مصور کی تصاویر میں فطرت اور تعمیرات کو تمام تر جزیات کے ساتھ پیش کیا جاتا تھا۔ اُن کے شاہکاروں میں رائن کے کنارے تعمیر کیے گئے قلعوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔
ایک تصویر، ایک یاد
سن 1774ء کی یہ تصویر کرسٹیان گیورگ شُٹس سینئر کی تخلیق ہے، جس میں سیاحوں میں خاص طور پر مقبول مقام ایلٹول اَم رائن کی منظر کشی کی گئی ہے۔ اُس دور کے امراء کو اپنی سیاحت کے دوران جب کوئی خاص مقام زیادہ اچھا لگتا تھا تو وہ آرڈر دے کر مہنگے داموں اس طرح کی تصاویر بنواتے تھے۔ یہ کام بڑھتا چلا گیا تو اس جرمن مصور نے اپنے خاندان کے دیگر افراد کو بھی اپنی ورکشاپ میں کام پر لگا دیا۔
مصور خاندان شُٹس
دریائے رائن کی خوبصورت تصاویر کے ذریعے پیسہ کمانے والے مصور خاندانوں میں ایک نام فرانس شُٹس کا بھی ہے، جن کے ہاں جزیات سے زیادہ جذبات کی اہمیت ہوا کرتی تھی۔ اُن کی اس تصویر میں اس دریا کو باد و باراں کی زَد میں آتا دکھایا گیا ہے۔ اس طرح اُنہوں نے ایک طرح سے اُس دور کے بدلتے سیاسی رجحانات کی بھی نشاندہی کی ہے۔ اُن کے مداحوں میں نامور جرمن فلسفی اور شاعر یوہان وولفگانگ فان گوئٹے بھی شامل تھے۔
فطرت اپنے پورے جوبن پر
رائن خواب دیکھنے کے ساتھ ساتھ تحقیق کی بھی ترغیب دیتا تھا۔ اس کے لیے بِنگن اور کوبلنز کے درمیان کا علاقہ خاص طور پر موزوں تھا۔ وسطی یورپ کے کسی بھی دوسرے خطے میں انواع کی اتنی بڑی تعداد نہیں تھی، جتنی کہ یہاں کے بے شمار جنگلات اور پتھریلے پہاڑوں میں۔ اٹھارویں صدی میں ان انواع سے متعلق تفصیلات درج کرنے اور اُنہیں جمع کرنے کا رجحان شروع ہوا۔
سٹرجیئن کا دور ختم ہوا
یہ سٹرجیئن یا سنگ ماہی اپنی نسل کی آخری مچھلی تھی، جسے 1840ء میں دریائے رائن سے پکڑا گیا۔ یہ مچھلی تین میٹر لمبی تھی اور اس کا وزن تین سو کلوگرام تھا۔ اس مچھلی کے ناپید ہو جانے کی وجوہات میں سے ایک یہ تھی کہ اس کا بہت زیادہ شکار کیا گیا۔ ایک اور وجہ یہ تھی کہ 1810ء سے اس دریا کو سیدھا کرنے کا کام شروع کر دیا گیا اور یہ ایک مصروف آبی راستے کی شکل اختیار کرتا چلا گیا۔
ویزباڈن میں رائن کی یادیں
یوہان وولفگانگ فان گوئٹے کے ایماء پر فان گیئرنگ کے شاہکار اکٹھے کرنے والے نے یہ سارے شاہکار ویزباڈن کے ایک مرکز میں جمع کروا دیے۔ یہی مرکز بعد میں ویزباڈن میوزیم کی شکل اختیار کر گیا، جہاں آج بھی سترہویں اور اٹھارویں صدی کے فن پارے اور دیگر اَشیاء دیکھی جا سکتی ہیں۔