1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیوکرین

یوکرینی جنگ: جرمن فرانسیسی اختلاف ’طریقے، نہ کہ پالیسی پر‘

17 مارچ 2024

فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا ہے کہ روس اور یوکرین کی جنگ سے متعلق جرمنی اور فرانس کے مابین اختلاف رائے ’’طریقے پر ہے نہ کہ پالیسی پر‘‘ اور اس جنگ کے بارے میں پیرس اور برلن کی سوچیں باہم متصادم نہیں ہیں۔

https://p.dw.com/p/4domH
جرمن چانسلر شولس، دائیں، کی فرانسیسی صدر ماکروں کے ساتھ پندرہ مارچ کو جرمنی میں سہ فریقی ملاقات کے موقع پر لی گئی ایک تصویر
جرمن چانسلر شولس، دائیں، کی فرانسیسی صدر ماکروں کے ساتھ پندرہ مارچ کو جرمنی میں سہ فریقی ملاقات کے موقع پر لی گئی ایک تصویرتصویر: Ebrahim Noroozi/AP/picture alliance

پیرس سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے آج اتوار 17 مارچ کو اخبار 'لپاریسیئاں‘ (Le Parisien) میں شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روس یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ کییف کے خلاف جارحیت کا مرتکب ہوا اور روسی صدر پوٹن 'خوف پھیلانے کی سوچ‘ پر عمل پیرا ہیں۔

جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے رہنماؤں کا اجلاس، یوکرین کی فوجی امداد کا موضوع زیر بحث

فرانسیسی سربراہ مملکت کے بقول روسی یوکرینی جنگ میں جرمنی اور فرانس مل کر یورپی یونین کی سطح پر یوکرین کی جو مدد کر رہے ہیں، اس میں بھی برلن اور پیرس میں قومی حکومتوں کے مابین کوئی اختلاف رائے نہیں ہے۔

’طریقہ کار مختلف ہے، پالیسی نہیں‘

صدر ایمانوئل ماکروں نے تاہم کہا کہ یوکرینی جنگ سے متعلق عملی فیصلوں میں جرمنی اور فرانس کے مابین اختلاف،''پالیسی کا اختلاف نہیں بلکہ ایک ہی پالیسی کو مختلف طریقوں سے عملی شکل دینے سے متعلق ہے۔‘‘

روس کے ساتھ جنگ میں 31 ہزار فوجی مارے جا چکے ہیں، زیلنسکی

ایمانوئل ماکروں نے یہ اعتراف بھی کیا کہ خود ان کا اور جرمن چانسلر اولاف شولس کا انداز سیاست مختلف ہے اور اس وجہ سے وہ نہیں سمجھتے کہ یہ دونوں رہنما یا ان کے ممالک آپس میں کسی تنازعے کا شکار ہیں۔

یوکرین جنگ: یورپی یونین کا مزید عسکری امداد فراہم کرنے پر اتفاق

صدر ماکروں نے پیرس سے شائع ہونے والے اخبار 'لپاریسیئاں‘ کو بتایا، ''میرے اور جرمن چانسلر شولس کے مابین کبھی کوئی مشکل یا مسائل نہیں رہے اور ہمارے درمیان مقاصد اور موجودہ صورت حال پر ردعمل کے حوالے سے بھی بہت کچھ مشترک ہے۔‘‘

فرانسیسی صدر کے الفاظ میں، ''کچھ فرق صرف اس حوالے سے ہے کہ فیصلوں کو عملی شکل کیسے دی جائے اور اس کا سبب بھی دونوں ممالک میں اسٹریٹیجک نوعیت کے فیصلوں کے وہ قومی کلچر ہیں، جو جرمنی اور فرانس میں بہرحال ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔‘‘

روس کے پاس جدید ترین نیوکلئیر ہتھیار موجود ہیں، پوٹن

روسی صدر پوٹن (تصویر) یوکرین کے خلاف جنگ کے ساتھ خوف پھیلانے کی سوچ پر عمل پیرا ہیں، فرانسیسی صدر ماکروں کا موقف
روسی صدر پوٹن (تصویر) یوکرین کے خلاف جنگ کے ساتھ خوف پھیلانے کی سوچ پر عمل پیرا ہیں، فرانسیسی صدر ماکروں کا موقفتصویر: Evgenia Novozhenina/REUTERS

ماکروں کے بیان کا پس منظر

فرانسیسی صدر ماکروں نے اپنے آج شائع ہونے والے اخباری انٹرویو میں یہ باتیں اس پس منظر میں کیں کہ جمعہ 15 مارچ کو جرمنی میں وائیمار کے شہر میں ماکروں، جرمن چانسلر شولس اور پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کی ایک مشترکہ ملاقات ہوئی تھی۔

یوکرین جنگ: ’ہتھیار ڈالنے کی علامت‘ سے متعلق پوپ کا بیان جرمنی کے لیے ناگوار

اس ملاقات سے قریب تین ہفتے قبل فرانسیسی صدر نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپی یونین کی طرف سے یوکرین کی روس کے ساتھ جنگ میں کییف کی مدد کرتے ہوئے اس امر کو عوامی سطح پر خارج از امکان قرار نہیں دینا چاہیے کہ مستقبل میں یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھی تعینات کیے جا سکتے ہیں۔

سویڈن مغربی فوجی اتحاد نیٹو کا بتیسواں رکن بن گیا

جرمن چانسلر شولس، دائیں، ۰پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کے ساتھ گزشتہ ماہ برلن میں ایک ملاقات کے موقع پر
جرمن چانسلر شولس، دائیں، ۰پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک کے ساتھ گزشتہ ماہ برلن میں ایک ملاقات کے موقع پرتصویر: Annegret Hilse/REUTERS

صدر ماکروں کے اس موقف سے جرمن چانسلر شولس نے اس کے بعد کے کئی دنوں میں متعدد مرتبہ اختلاف کرتے ہوئے اسے مسترد بھی کر دیا تھا۔ ساتھ ہی چانسلر اولاف شولس نے یہ بھی کہا تھا کہ جرمنی اپنے فوجی یوکرین نہیں بھیجے گا۔

جرمن فوج نے مغرب کو تقسیم کرنے کی روسی کوشش کو بے نقاب کر دیا، امریکہ

پھر فرانسیسی صدر نے اولاف شولس کے ساتھ ملاقات کی تجویز پیش کی تھی، جو برلن میں ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد بھی فرانسیسی صدر نے زور دے کر کہا تھا کہ یوکرین میں زمینی فوجی دستے بھیجنا ممکنہ طور پر ضروری ہو سکتا ہے۔

تاہم جرمن چانسلر شولس ابھی تک روسی یوکرینی جنگ سے متعلق صدر ماکروں کے اس موقف سے مختلف سوچ کے حامل ہیں۔

م م / ع ب (ڈی پی اے، اے ایف پی)

یوکرین پر روسی حملے کے دو برس مکمل