1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی موقف میں تبدیلی نہیں آئی: روسی سفیر وطالی چرکین

Kishwar Mustafa22 مارچ 2012

سلامتی کونسل کی دو ویٹو طاقتیں چین اور روس شام کے خلاف اقوام متحدہ کی کسی مذمتی قرارداد کی مہینوں تک مخالفت کرتی رہی ہیں۔ اب عالمی ادارے کی اس اعلیٰ ترین کونسل نے اس کی راہ ہموار کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/14P6A
تصویر: dapd

سلامتی کونسل میں متفقہ طور پر ایک اعلامیے کی منظوری دے دی گئی ہے، جس میں شام میں جاری تشدد کے فوری خاتمے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس کاغذی اعلامیے کی حیثیت گرچہ کسی قرارداد جیسی نہیں ہے تاہم اس پر تمام اراکین کا اتفاق بہت اہم ہے اور دمشق حکومت کے لیے ایک انتباہ کی واضح علامت ہے ۔

سلامتی کونسل کے برطانیہ سے تعلق رکھنے والے Sir Lyall Grant یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شام سے متعلق کسی طاقتور قرارداد تک پہنچنے کے سلسلے میں کوئی بڑی انقلابی پیشرفت ہوئی ہے۔ اُن کے بقول یہ سوال روس اور چین سے کیا جانا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں، ’فی الوقت ایک صدارتی اعلامیے پر اتفاق ہوا ہے تاہم یہ ایک واضح اشارہ ہے اس امر کا کہ سلامتی کونسل شام کے لیے مقرر کردہ خصوصی ایلچی کوفی عنان کے مشن کی بھرپور پشت پناہی کر رہی ہے‘۔

Kofi Annan in Damascus in Syrien
کوفی عنان کا دورہِ دمشقتصویر: picture-alliance/dpa

تاہم اقوام متحدہ میں برطانوی سفیر کا کہنا ہے کہ اس اتفاق کی ایک بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ روس اور چین کے موقف کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے فرانس اس اعلامیے میں اپنے بیان میں خاصی حد تک نرمی لایا ہے۔ ڈیڑھ صفحے پر مشتمل اس مسودے میں شامی صدر بشار الاسد کی مذمت سے اجتناب کیا گیا ہے۔ دمشق حکومت اور اپوزیشن دونوں سے فائر بندی اور مذاکرات پر آمادگی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اس مسودے میں شام کی سالمیت اور آزادی پر نہایت واضح انداز میں زور دیا گیا ہے۔ ان نکات کو شامل کر کے ہی روس اور چین کی حمایت حاصل کی گئی ہے، جو ایک سفارتی جیت کے بغیر ممکن نہیں تھا اور اس کا اظہاراقوام متحدہ میں متعینہ روسی سفیر وطالی چرکین نے یہ بیان دیتے ہوئے کیا کہ’آخر کار اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شام کی صورتحال سے متعلق ایک قابل عمل جائزہ پیش کیا ہے‘۔ چرکین کسی بھی صورت اسے روس کے موقف میں تبدیلی نہیں کہنا چاہتے۔ اُن کے بقول،’ اس فیصلے کے ساتھ ہم بالکل انہی خطوط پر قائم ہیں جو ہم نے شام کے بحران کے سامنے آنے سے لے کر اب تک استوار رکھے ہیں‘۔

Syrien Bürgerkrieg Regierungstruppen beschießen Idlib Flüchtlinge
شورش ذدہ علاقے ادلیب سے فرار ہونے کی کوشش میں مصروف ایک شامی خاندانتصویر: dapd

چین اور روس نے اسد حکومت کی مذمت کے معاملے کو ہمیشہ اپنی ویٹو طاقت سے روکے رکھا۔ اس نئے مسودے میں سلامتی کونسل کے تمام 15 اراکین نے شام کے بحران کے خاتمے کے لیے اقوام متحدہ اور عرب لیگ کی جانب سے مقرر کردہ خصوصی ایلچی کوفی عنان کے امن منصوبے پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں وہ 6 نکاتی پلان بھی شامل ہے جو عنان نے شامی صدر اسد کے سامنے پیش کیا تھا۔ اس میں شام میں اقوام متحدہ کی زیر نگرانی فوری فائر بندی، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کام کرنے والوں کو شام کے بحران زدہ علاقوں تک رسائی فراہم کرنے، قیدیوں کی رہائی اور حکومت مخالفین کی طرف سے مظاہروں کا گڑھ سمجھے جانے والے علاقوں سے حکومتی فورسز کی واپسی جیسے نکات شامل ہیں۔

دریں اثناء وفاقی جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے جرمنی کا موقف بیان کرتے ہوئے ان اقدامات کو نہایت ضروری قرار دیا ہے۔ اُن کے بقول اسے عملی جامہ پہنانا، شام میں بحران ذدہ علاقوں کے متاثرین کے حق میں ہے۔

رپورٹ: تھومس شمٹ / کشور مصطفیٰ

ادارت: امجد علی