1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستبیلاروس

نگرانی پر مامور روسی طیارے پر حملہ

27 فروری 2023

بیلا روس کے حکومت مخالف کارکنوں نے منسک کے قریب نگرانی کرنے والے روسی طیارے پر ڈرون سے حملہ کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ دریں اثناء روس نے کہا ہے کہ چین کے امن منصوبے کا بغور جائزہ لیا جائے۔

https://p.dw.com/p/4O2Wr
Russland | Berijew A-50
تصویر: Alexander Zemlianichenko/REUTERS

 

بیلاروس میں حکومت مخالف کارکنوں نے منسک کے قریب ایک ہوائی اڈے پر A-50 طرز کے ایک روسی طیارے پر حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ خفیہ کارروائی ڈرون کے ذریعے کی گئی۔

'بائی پول اپوزیشن‘  تنظیم کے رہنما، آلیکسانڈر آزاراؤ نے پولینڈ میں مقیم جلاوطن میڈیا چینل بیلساٹ کو بتایا کہ مچولیشچی حملہ ملک سے فرار ہونے والے بیلا روسیوں نے کیا تھا اور اب وہ ''محفوظ ہاتھوں‘‘ میں ہیں۔

بیلاروسی اپوزیشن لیڈرسویٹلانا تسخانوسکایا کے مشیر فراناک ویاکورکا نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں اس حملے کو سراہتے ہوئے تحریر کیا کہ 2022ء کے آغاز کے بعد سے اب تک کا یہ ''سب سے کامیاب موڑ‘‘ ہے۔ بیلاروس کے حامیوں کو انہوں نے خراج تحسین پیش کیا۔

معتبر جرمن شارلیمان پرائز بیلاروس کی اپوزیشن لیڈر کے نام

حملے کا نشانہ بننے والے روسی طیارے، بیرییف A-50 کمانڈ اینڈ کنٹرول کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور یہ بیک وقت 60 اہداف کو ٹریک  کرنے کا متحمل ہے۔ 

ایک سال قبل یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے بیلاروس میں تخریب کاری کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ واضح رہے کہ اس کی سرحدیں یوکرین اور روس دونوں سے ملتی ہیں۔ ملک کے مطالق العنان رہنما آلیکسانڈر لوکاشینکو تاہم روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی حکومت پر مکمل انحصار کرتے ہیں۔  گزشتہ برس منسک نے ماسکو کو یوکرین پر حملہ کرنے کے لیے اپنی سرزمین استعمال کرنے کی مکمل اجازت دی تھی۔ 

Belarus Oppositionspolitiker Senon Posnyak und seine Verbündeten
یبلا روس کے اپوزیشن لیڈرزتصویر: Tatiana Gargalyk/DW

اُدھر ماسکو نے کہا ہے کہ وہ چین کے امن منصوبے کی تفصیلات کا جائزہ لے رہا ہے۔تاہم   کریملن کو ابھی تک یوکرین میں پرامن حل کے لیے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔

کریملن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے پیر کو صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''ہم اپنے چینی دوستوں کے منصوبے پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یقیناً، تمام فریقوں کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے تفصیلات کا بڑے انہماک سے تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک بہت طویل اور شدید عمل ہے۔‘‘

بیلاروس کی اپوزیشن کے لیے یورپی ایوارڈ

یہ منصوبہ دونوں فریقوں پر زور دیتا ہے کہ وہ بتدریج 'ڈی اسکیلیشن‘ پر اتفاق کریں۔ اس میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے خلاف انتباہ بھی شامل ہے، جس کا روس حال ہی میں اشارہ دے چُکا ہے۔

دریں اثنا، چینی وزارت خارجہ کی طرف سے اس بات پر زور دیا جا رہا ہے کہ، اس نے ہمیشہ تنازعہ میں تمام فریقوں کے ساتھ رابطے کے عمل کو برقرار رکھا ہے۔

چینی صدر شی جن پنگ، جنہوں نے یوکرین پر حملے سے چند دن پہلے اپنے روسی ہم منصب کے ساتھ '' لامحدود‘‘ اتحاد کا اعلان کیا تھا، جنگ کے آغاز کے بعد سے کئی بار ولادیمیر پوٹن سے بات چیت کر چکے ہیں۔

ک م/  ع ا( رعنا طاہا)