1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتشمالی امریکہ

روس کے مقابلے چین زیادہ بڑا خطرہ ہے، امریکہ

27 مئی 2022

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے عالمی برادری سے چین کو روکنے اور اس کا مقابلہ کرنے کے لیے متحد ہونے کی اپیل کی ہے۔ بلنکن کا کہنا ہے کہ روس فوری خطرہ ہے لیکن چین سے عالمی نظام کو زیادہ سنگین خطرات لاحق ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Bv7g
Außenminister Antony Blinken spricht im Jack Morton Auditorium der George Washington University über China
تصویر: Alex Wong/AFP

جارج واشنگٹن یونیورسٹی میں جمعرات کے روز تقریر کرتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا،"چین ایک ایسا ملک ہے جو بین الاقوامی نظام کو اپنے نظریات کے مطابق آگے لے جانے کے اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے اقتصادی، تکنیکی، فوجی اور سفارتی ذرائع کو اپنی مرضی سے ا ستعمال کرنا چاہتا ہے۔ "

 بلنکن نے اپنی تقریر میں اقتصادی مسابقت اور فوجی مفادات کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے چین کے متعلق امریکی حکومت کی پالیسیوں کا ذکر کیا۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ روس توعالمی نظام کے لیے موجود ہ اور فوری خطرہ ہے لیکن طویل مدت کے لحاظ سے چین بین الاقوامی سکیورٹی کو تباہ کرنے کی زیادہ صلاحیت رکھتا ہے۔  بلنکن نے کہا،" بین الاقوامی نظام کی بنیادوں کو اس وقت سنگین اور مسلسل خطرات لاحق ہیں۔"

یوکرین پر حملہ کرنے سے قبل روس نے چین کے ساتھ ایک "لامحدود " سیکورٹی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ دونوں ملکوں نے اس حوالے سے  ایک طویل بیان بھی جاری کیا تھا کہ ان کے مابین تعاون کی نوعیت کیا ہوگی۔

چین پر امریکی پالیسی کے حوالے سے بلنکن کی تقریر کا مقصد کیا تھا؟

امریکہ چین کا مقابلہ اور اسے روکنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع استعمال کرنا چاہتا ہے جس میں اس کے متعدد دوست اور اتحادی نیز خاطر خواہ وسائل، فوج اور دیگر شامل ہیں۔

امریکی حکام اس بات کااعتراف کرتے ہیں کہ چین کے بڑھتے ہوئے اثرات اور اس کے مقاصد کو روکنے کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔ امریکہ چین کے اطرا ف میں ایک ایسا اسٹریٹیجک ماحول بنانے میں دلچسپی رکھتا ہے جس کے اندر ہی بیجنگ کے رہنما اپنے فیصلے لے سکیں۔

Außenminister Antony Blinken spricht im Jack Morton Auditorium der George Washington University über China
تصویر: Alex Wong/AFP

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ یوکرین میں روس کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحادیوں نے جو طریقہ کار اپنایا ہے وہ مستقبل میں چین کے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک بہترین ماڈل ثابت ہوسکتا ہے۔

بلنکن کا کہنا تھا،" پوٹن کو ان کے مقاصد کے حصول سے روک کر ہم نے یقیناً دیگر ملکوں کو روکنے اور ان کی جانب سے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں اپنے ہاتھوں کو کافی مضبوط کیا ہے۔ دنیا کے دیگر ملکوں نے ایک اور عالمی جنگ اور جوہری طاقتو ں کے درمیان تصادم سے گریز کیا ہے۔"

چین کے حوالے سے امریکہ کی اسٹریٹیجک پالیسی

امریکی صدر جو بائیڈن نے چند روز قبل ہی جنوبی کوریا اور جاپان کا اپنا دورہ مکمل کیا ہے۔ دونوں ملکوں کے دورے کے دوران چین بات چیت کا اہم موضوع رہا۔

بائیڈن انتظامیہ نے چین کے حوالے سے ان مخاصمانہ پالیسیوں کو بڑی حد تک برقرار رکھا ہے جو ٹرمپ انتظامیہ کے دوران شروع کی گئی تھیں۔ یہ پالیسیاں سنکیانگ میں ایغور اقلیتی مسلمانوں، ہانگ کانگ نیز تبت اور جنوبی بحر چین میں جمہوریت نوازوں کے خلاف بیجنگ کے کارروائیوں کے مدنظر تیار کی گئیں تھیں۔

بلنکن نے جمعرات کے روز اپنی تقریر میں بالخصوص ایغوروں کا ذکر کیا جن کے خلاف واشنگٹن کے بقول چین نے نسل کشی شروع کر رکھی ہے۔

ایشیا کے اپنے حالیہ دورے کے دوران بائیڈن نے واضح لفظوں میں کہا تھا کہ اگر چین نے متنازعہ اور جمہوری ملک تائیوان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ چین تائیوان کو اپنا حصہ قرار دیتا ہے۔

گوکہ امریکہ کا تائیوان کے ساتھ رسمی تعلق ہے لیکن وہ سن 1979سے ہی "ون چائنا"پالیسی پر عمل کرتا ہے۔ امریکی عہدیداروں کا خیال ہے کہ تائیوان کے متعلق بائیڈن کے باوجود اس کے حوالے سے واشنگٹن کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔

بلنکن نے بھی اپنی تقریر میں اس کی تصدیق کی اور کہا کہ "ہم تائیوان کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتے۔"

ج ا  / ص ز (اے پی، اے ایف پی،روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید