1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روس اور مغرب دونوں پر یکساں اعتماد ہے، ترک صدر ایردوآن

19 ستمبر 2023

ترک صدر رجب طیب ایردوآن کا کہنا ہے کہ وہ روس پر بھی اتنا ہی بھروسہ کرتے ہیں جتنا کہ مغرب پر۔ انقرہ روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔

https://p.dw.com/p/4WXwz
روسی صدر پوٹن اورترک صدر طیب ایردوآں
انقرہ نے 19 ماہ کی جنگ کے دوران روس اور یوکرین دونوں ہی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیںتصویر: Alexei Nikolsky/AP Photo/picture alliance

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے کہا کہ وہ بحیرہ اسود کے راستے یوکرینی اناج کی برآمد کے معاہدے کو بحال کروانے میں ناکام رہے ہیں۔

روس نے یوکرینی اجناس کی ترسیل کی ڈیل روک دی

واضح رہے کہ روس نے جولائی میں اس معاہدے سے دستبرداری اختیار کر لی تھی تاہم ماسکو نے افریقہ کو 10 لاکھ ٹن روسی اناج فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔

صدر پوٹن جلد ہی نیٹو کے رکن ملک ترکی کا دورہ کریں گے، ماسکو

ترک صدر نے مزید کیا کہا؟

پیر کے روز امریکی شہر نیو یارک میں ایک امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کے ساتھ انٹرویو کے دوران ترک صدر نے کہا، ’’میرے پاس ان پر اعتماد نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔‘‘

ترک برآمدات سے روس اپنی جنگی صلاحتیں بڑھا رہا ہے، امریکہ

صدر ایردوآن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک میں ہیں۔

ماسکو میں ترکی اور شام کے وزرا ئے دفاع کی برسوں بعد ملاقات

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا، ’’جس حد تک مغرب قابل اعتماد ہے، روس بھی اتنا ہی قابل اعتماد ہے۔ پچھلے 50 برسوں سے، ہم یورپی یونین کی دہلیز پر انتظار کر رہے ہیں۔ اور اس وقت، میں روس پر بھی اتنا ہی بھروسہ کرتا ہوں جتنا کہ میں مغرب پر اعتماد کرتا ہوں۔‘‘

روس کو مہلک ڈرون کون فراہم کر رہا ہے؟

انقرہ نے 19 ماہ کی جنگکے دوران روس اور یوکرین دونوں ہی کے ساتھ قریبی تعلقات برقرار رکھے ہیں۔

روسی صدر پوٹن اور طیب ایردوآں
گزشتہ سال جولائی میں ترکی اور اقوام متحدہ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یوکرینی اناج کو بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے محفوظ طریقے سے بھیجنے کی اجازت دی گئی تھیتصویر: Sergei Guneev/Sputnik/REUTERS

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات کی وضاحت کرتے ہوئے صدر ایردوآن نے کہا کہ وہ بحیرہ اسود کے راستے یوکرینی اناج کی برآمد کے اس معاہدے کو دوبارہ فعال بنوانے میں ناکام رہے ہیں، جس سے کریملن جولائی میں دستبردار ہو گیا تھا۔

’’میرے پاس ان پر بھروسہ نہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے،‘‘ ایردوآن نے پیر کو دیر گئے نیویارک میں امریکی نشریاتی ادارے پی بی ایس کے ساتھ ایک انٹرویو کے دوران کہا، جہاں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کر رہے ہیں۔

گزشتہ سال جولائی میں ترکی اور اقوام متحدہ نے ایک معاہدہ کیا تھا جس کے تحت یوکرینی اناج کو بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے محفوظ طریقے سے بھیجنے کی اجازت دی گئی تھی، جس سے خوراک کے عالمی بحران کو دور کرنے میں مدد بھی ملی تھی۔

تاہم دو ماہ قبل ماسکو یہ کہتے ہوئے اس معاہدے سے دستبردار ہو گیا تھا کہ روس کی کھانے پینے کی اشیاء اور کھاد کی برآمدات کی اجازت دینے کے متوازی معاہدے کا احترام نہیں کیا گیا۔

ترک صدر ایردوآن انتخابات جیتنے کے چار ماہ بعد نیو یارک کا دورہ کر رہے ہیں۔ انقرہ کے مغرب کے ساتھ تعلقات اکثر کشیدہ رہے ہیں تاہم اس بار ان کی انتخابی کامیابی کے بعد ان رشتوں میں بہتری کے آثار دیکھے گئے ہیں۔

نیو یارک روانگی سے قبل ترک صدر نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ ترکی یورپی یونین کی رکنیت کے لیے اپنی 24 سالہ کوششوں کو اب ختم بھی کر سکتا ہے۔ تاہم پیر کو ایک تقریب سے خطاب کے دوران وہ اپنے اس بیان سے پیچھے ہٹتے نظر آئے۔

ایردوآن کے دفتر سے شائع ہونے والے ایک بیان کے مطابق انہوں نے کہا، ’’ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک نازک دور میں ترکی اور یورپی یونین کے تعلقات کی بحالی کے لیے موقع کی ایک کھڑکی کھل گئی ہے۔ ہم یورپی یونین میں شمولیت کے عمل میں ترکی کے احیا کی اہمیت پر زور دیتے رہتے ہیں۔‘‘

ترک صدر نے اس موقع پر واشنگٹن کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کا بھی عندیہ دیا۔ انہوں نے کہا، ’’ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعاون میں ترقی پر خوش ہیں۔ ہم نے صدر بائیڈن کے ساتھ بات چیت کے دوران زیادہ تر تعطل ختم کر لیا ہے اور ہم نے مثبت ایجنڈے کے مطابق مزید مذاکرات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘

یوکرین کی جنگ اور صدر پوٹن کے ساتھ اپنے رابطوں کے تناظر میں صدر ایردوآن نے کہا، ’’یہ بالکل واضح ہے کہ یہ جنگ طویل عرصے تک جاری رہنے والی ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ البتہ روسی رہنما ’’اس جنگ کو جلد از جلد ختم کرنے پر تیار ہیں۔ انہوں نے یہی بات کہی ہے اور میں ان کے اس بیان پر یقین کرتا ہوں۔‘‘

ص ز / م م (اے پی، روئٹرز)

روسی يوکرينی جنگ سے ترکی ميں سياحت بھی متاثر