1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رنجن گوگوئی کی حلف برداری: اپوزیشن کے’شیم شیم‘ کے نعرے

جاوید اختر، نئی دہلی
19 مارچ 2020

بھارت کے سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے آج راجیا سبھا کی رکنیت کا حلف اُٹھا لیا لیکن اس دوران اپوزیشن نے ’شیم شیم‘ کے نعرے لگائے اور ایوان سے واک آوٹ کیا۔

https://p.dw.com/p/3Zi3K
Indien Neu Delhi Ranjan Gogoi S.A. Bobde
تصویر: IANS

بھارتی پارلیمان کے ایوان بالامیں نئے رکن کا تالیاں بجا کر استقبال کرنے کی روایت رہی ہے لیکن یہ غالباً پہلا موقع تھا جب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے معزز عہدہ پر فائز رہ چکے شخص کا خیرمقدم ’شرم کروشرم کرو‘ کے نعروں کے ساتھ کیا گیا۔

رنجن گوگوئی جیسے ہی راجیا سبھا کے رکن کا حلف لینے کے لیے کھڑے ہوئے اپوزیشن اراکین نے ’شیم شیم‘ کے نعرے لگانے شروع کردیے۔  راجیا سبھا کے چیئرمین اور نائب صدر ایم وینکیا نائیڈو اپوزیشن اراکین کو خاموش رہنے کی تلقین کرتے رہے اور کہا کہ ان کے الفاظ ریکارڈ میں درج نہیں کیے جائیں گے اور یہ کہ ان کا رویہ ایوان بالا کے رکن کے وقار کے مطابق نہیں ہے۔ وزیر قانون روی شنکر پرساد نے بھی اپوزیشن اراکین کے رویے کو نامناسب قرا ردیا اور یاد دلایا کہ سابق جج سمیت متعدد معروف شخصیات اس ایوان کے لیے نامزدہوتے رہے ہیں۔لیکن ناراض اراکین پر ان سب باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا، وہ نعرے لگاتے رہے اورپھر ایوان سے واک آوٹ کرگئے۔

رنجن گوگوئی نے کہا کہ ’یہی لوگ بہت جلد ان کا خیرمقدم کریں گے۔‘ رکنیت کا حلف لینے سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ وہ یہ عہدہ اس لیے قبول کررہے ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہے کہ ملک کی تعمیر میں مقننہ اور عدلیہ کو ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے۔

Indien Guvahati | Richter Ranjan Gogoi besucht Guvahati und legt Grundstein für ein Auditorium
رنجن گوگوئی 2019 ء میں گوہاٹی کے دورے پر۔تصویر: DW/P. Tiwari

بھارتی پارلیمان کے ایوان بالا راجیا سبھا میں 245 اراکین ہوتے ہیں۔ ان میں سے12 کو بھارتی صدر نامزد کرتے ہیں لیکن یہ نامزدگیاں حکومت کی سفارش پر کی جاتی ہیں۔ نامزد اراکین عام طور پر ملک کی معروف شخصیات ہوتی ہیں۔ ماضی میں راجیا سبھا کے لیے نامزد کیے جانے والی مشہور شخصیات میں کرکٹر سچن تندولکر، فلم اداکارہ ریکھا، شبانہ اعظمی، نرگس دت، پینٹر ایم ایف حسین، اولمپک باکسر میری کوم اور گلوکارہ لتا منگیشکر وغیرہ شامل ہیں لیکن بھارت کے سابق چیف جسٹس کو عہدہ سے سبکدوشی کے صرف چار ماہ کے اندر راجیا سبھا کے لیے نامزد کیے جانے پر سیاسی جماعتوں کے علاوہ بھارتی عدلیہ برادری اور سول سوسائٹی کی جانب سے سخت اعتراض کیا جارہاہے۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ گوگوئی نے چیف جسٹس کے عہدہ پر فائز رہتے ہوئے بابری مسجد اور رام جنم بھومی،رفائیل طیارہ ڈیل، شہریوں کا قومی رجسٹر جیسے متعدد اہم مقدمات کا فیصلہ سنایا تھا۔ ان فیصلوں سے حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وزیر اعظم نریندر مودی کو بالواسطہ طور پر زبردست سیاسی فائدہ پہنچا۔ اسی لیے یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ رنجن گوگوئی کو ’انعام یا معاوضہ‘ کے طور پرراجیا سبھا کی رکنیت دی گئی ہے۔

اپوزیشن کانگریس پارٹی نے جسٹس گوگوئی کی نامزدگی کو آئین کے بنیادی ڈھانچے پر ’سنگین، غیر معمولی اور ناقابل معافی‘ حملہ قرا ردیا۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس کوریئن جوزف کا کہنا تھا کہ سابق چیف جسٹس کا راجیا سبھا کی رکنیت قبول کرلینے سے عدلیہ کی آزادی پر سے عوام کا اعتماد متزلزل ہوگیا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایک اور سابق جج جسٹس مدن بی لوکور نے سوال کیا کہ کیا ملک میں انصاف کا آخری قلعہ بھی منہدم ہوگیا ہے؟ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے سوشل میڈیا پر اپنے مضمون میں رنجن گوگوئی پر زبردست حملہ کیا ہے۔ جسٹس کاٹجو نے لکھاہے”میں بیس برس تک وکیل اور بیس برس جج رہا ہوں۔ اپنے کیریئر میں میں نے کئی اچھے ججوں کو دیکھا اور کئی برے ججوں سے بھی واسطہ پڑا۔ لیکن یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھارتی عدلیہ میں کسی بھی جج کو جنسی بے راہ روی کا شکار رنجن گوگوئی جتنا بے شرم اور بے غیرت نہیں مانتا۔ شاید ہی کوئی خرابی ہے جو اس شخص میں نہ ہو۔ اب یہ بے وقوف بھارتی پارلیمان کی عزت افزائی کرے گا۔"

Indien Guvahati | Richter Ranjan Gogoi besucht Guvahati und legt Grundstein für ein Auditorium
رنجن گوگوئی کی نامزدگی کو ریاست آسام میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے بھی جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔تصویر: DW/P. Tiwari

 رنجن گوگوئی کی نامزدگی کو ریاست آسام میں آئندہ سال ہونے والے اسمبلی انتخابات سے بھی جوڑ کر دیکھا جارہا ہے۔ ان کا تعلق آسام کے اہوم قبیلے سے ہے، کسی زمانے میں وہاں اس کی حکمرانی تھی اور اب بھی اس کا وہاں خاصا اثر ہے۔

حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی اپوزیشن کے اعتراضات کو مسترد کرتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ ماضی میں بھی سبکدوش ججوں کو راجیہ سبھا کا رکن بنایا گیا ہے۔ اس ضمن میں کانگریس کی طرف سے جسٹس رنگ ناتھ مشرا کو راجیا سبھا کا رکن بنانے کی مثال پیش کررہی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دونوں میں بنیادی فرق ہے۔ جسٹس رنگ ناتھ مشرا کو سبکدوشی کے چھ برس بعد رکن بنایا گیا تھا اور اس وقت مرکز میں کانگریس کی نہیں بلکہ اٹل بہاری واجپئی کی قیادت والی بی جے پی کی حکومت تھی۔ اس کے علاوہ ایک غلطی کو دوسری غلطی سے درست نہیں کیا جاسکتا۔

بھارتی عدلیہ حالیہ دنوں میں اپنے بعض فیصلوں کی وجہ سے سوالوں کی زد میں ہے۔ سابق اعلٰی سرکاری افسر ہرش مندر کا ایک متنازعہ بیان ان دنوں سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے۔ ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتے ہوئے سنائی دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ سے انصاف کی امید نہیں کی جاسکتی۔ اس دوران سماجی کارکن مدھو کشور نے گوگوئی کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیے جانے کے خلاف سپریم کورٹ میں ایک عرضی دائر کرکے کہا ہے کہ بھارتی صدر کا فیصلہ عدلیہ کی آزادی اور اعتماد کے ساتھ سمجھوتہ ہے۔ یہ ایک سیاسی تقرری ہے اوراس کی وجہ سے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے عہدہ پر رہتے ہوئے دیے گئے فیصلوں پر شک پیدا ہونا لازمی ہے۔

جاویدا ختر، نئی دہلی/ ک م

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں