رزمک کیڈٹ کالج کےمغوی طلباء بازیاب
2 جون 2009بازیاب ہونے والے طلباء اورعملے کے اہلکاروں کو فوجی ہیلی کاپٹرکے ذریعے بنوں پہنچایاگیا۔ بنوں کے ضلعی پولیس آفیسر اقبال مروت کا کہنا ہے کہ 40 طلباءاورعملے کے ارکان اب بھی لاپتہ ہیں جن کی بازیابی کے لئے کوششیں کی جارہی ہے تاہم رزمک کیڈٹ کالج کے پرنسپل جاوید اقبال پراچہ کا کہنا ہے :”10سے 15طلباء ابھی تک لاپتہ ہیں اور تاحال ان سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا جب ہم کالج سے روانہ ہوئے توطلباءکی تعداد 300 تھی ان میں 73 کو بازیاب کرایا گیا کچھ ابھی باقی ہیں میرے خیال میں 10سے 15بچے ابھی لاپتہ ہیں“۔
شمالی وزیرستان کے تحصیل رزمک میں واقع کیڈٹ کالج کو گزشتہ روز پولیٹکل انتظامیہ کی ہدایت پر اچانک بند کردیاگیا اطلاعات کے مطابق پولیٹکل انتظامیہ نے بچوں کو بنوں پہنچانے کے لئے گاڑیاں بھی بجھوائیں تاہم رزمک کیڈٹ کالج کے طلباءاور اساتذہ 27 گاڑیوں میں بنوں آرہے تھے کہ اس دوران نیم قبائلی علاقے بکاخیل کے قریب مسلح افراد ان کاراستہ روک کر 4گاڑیوں میں سوار طلباء اورعملے کے ارکان کواغواءکرکے جنوبی وزیرستان کی طرف لے گئے تاہم اس دوران باقی گاڑیوں میں سوار طلباءاورعملے کے ارکان نکلنے میں کامیاب ہوگئے فوج نے شرپسندوں کے خلاف فوری آپریشن شروع کرکے 71طلباءاور9 اہلکاروں کو بازیاب کرا لیا۔
فوجی آپریشن کے کمانڈر بریگیڈئیر زاہد عبداللہ کا کہناہے کہ : ” شرپسند بچوں کو ڈھال بناکر ملاکنڈ میں جاری آپریشن پرحکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے تھے تاہم ان کی یہ کوشش ناکام بنادی گئی بریگیڈئیر زاہد عبداللہ کاکہنا ہے : ”ہم 6گاڑیاں بازیاب کراچکے ہیں چونکہ کچے راستے تھے اس لیے دو گاڑیاں راستے میں خراب ہوگئی ہیں اس کی ابھی تلاش جاری ہے بازیاب ہونے والے بچوں کے مطابق خراب ہونے والی گاڑیوں کے بچوں کو شرپسندوں نے اپنی گاڑیوں میں شفٹ کیا تھا، شرپسندوں کی بھی کئی گاڑیاں ہم نے قبضے میں لی ہیں ہمیں امید ہے کہ تمام بچے ریکور ہوچکے ہیں بہرحال اس بات کی تصدیق ابھی باقی ہے ہم سب لوگ سمجھتے ہیں کہ عسکریت پسند ان بچوں کو ڈھال کے طورپر استعمال کرنا چاہتے تھے سوات کے علاقے میں فوجی اور عوام مل کر عسکریت پسندوں کے خلاف جو آپریشن کررہے ہیں یہ لوگ اس آپریشن پر حکومت کو بلیک میل کرنا چاہتے ہوں گے اورحکومتی پوزیشن کو کمزور کرنے کے لئے شرپسند بچوں کو استعمال کرنا چاہتے ہوں گے لیکن وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے“۔
طلباء اور عملے کے ارکان کی بازیابی کے بعد انتظامیہ نے نیم قبائلی علاقے بکاخیل اورجانی خیل اقوام کے عمائدین سے اس حوالے سے پوچھ گچھ شروع کی تاہم مناسب جواب نہ ملنے کے بعد دونوں قبائل کے سرکاری مراعات بند کردی گئی یہ بات قابل ذکر ہے کہ مالاکنڈ ڈویژن کے علاوہ جنوبی وزیرستان میں بھی عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی آپریشن جاری ہے مبصرین کے مطابق اس واقعے کے بعد آپریشن میں تیزی آسکتی ہے۔