1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

رانا پلازہ کے سانحے کے دو برس بعد کیا تبدیل ہوا ؟

ڈومینیک سیسپڈ ⁄ عابد حسین22 اپریل 2015

انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹروں کے حالات بہتر نہ کرنے پر حکومت پر تنقید کی ہے۔ اِس انسانی حقوق کی تنظیم نے رانا پلازہ کی ٹریجڈی کے دو برس مکمل ہونے پر ایک رپورٹ جاری کی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FCPh
تصویر: picture-alliance/AP

ہیومن رائٹس واچ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں ڈھاکہ حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مزدروں کے تحفظ کی کوششوں میں ناکام ہو رہی ہے۔ امریکی شہر نیویارک میں قائم انسانی حقوق کی تنظیم کے ایشیائی دفتر کے سربراہ نے یہ خصوصی رپورٹ رانا پلازہ کے انہدام کے دو برس مکمل ہونے پر جاری کی ہے۔ اِس پلازہ کے منہدم ہونے کے نتیجے میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔ دو برس بعد بھی بنگلہ دیشی گارمنٹ فیکٹریوں کے کام کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی نہیں دیکھی گئی ہے۔

انسانی حقوق کے نگران ادارے کے ایشیائی ڈائریکٹر فل رابرٹسن کے بقول حکومت بالخصوص گارمنٹ فیکٹریوں میں کام کرنے والے مزدوروں کے خلاف ڈھائے جانے والے مظالم کے خاتمے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کر رہی ہے۔ انہوں نے ڈھاکہ حکومت اور بین الاقوامی ریٹیلرز پر زور دیا ہے کہ وہ فیکٹری مالکان پر دباؤ بڑھائیں کہ وہ مزدوروں کے بنیادی حقوق کا تحفظ یقینی بنائیں۔ اٹھہتر صفحات کی پر مبنی اس رپورٹ میں 160 مزدوروں کے انٹرویوز بھی شامل کیے گئے ہیں۔ تمام مزدوروں نے اپنے انٹرویوز نام مخفی رکھتے ہوئے ریکارڈ کروائے تھے۔

Bangladesch Textilfabrik Jahrestag Rana
رانا پلازہ کے منہدم ہونے کے نتیجے میں گیارہ سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہو گئے تھےتصویر: DW/M. Mamun

اس رپورٹ میں واضح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں میں مزدوروں کو بعض اوقات تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ مالکان اُن کی بےعزتی سے گریز نہیں کرتے اور انہیں زیادہ کام کروانے کے لیے ڈرانے دھمکانے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ خواتین ملازمین کو جنسی جبر کا نشانہ بنانے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔

یہ امر اہم ہے کہ بنگلہ دیش کی گارمنٹ فیکٹریوں کے ملازمین میں زیادہ تعداد خواتین کی ہے اور اُن کے نگران یا مینیجر مرد ہیں۔ ان خواتین اور دوسرے ورکرز کو زبردستی اضافی کام لیا جاتا ہے۔ اسی طرح ماہانہ تنخراہ دیتے ہوئے ایک مخصوص رقم روک لینے کا رویہ بھی فیکٹری مالکان میں پایا جاتا ہے۔

بنگلہ دیش میں اندازوں کے مطابق پانچ ہزار گارمنٹ فیکٹریاں ہیں۔ ان فیکٹریوں میں چار ملین افراد ملازم ہیں۔ اِن فیکٹریوں میں تیار ہونے والے گارمنٹس کی ایکسپورٹ سے ملکی خزانے میں سالانہ بنیاد پر بیس بلین ڈالر سے زائد غیر ملکی زرمبادلہ جمع ہوتا ہے۔ یہ اربوں ڈالر بنگلہ دیش کی اقتصادیات کے لیے ایک بہت بڑا سہارا ہے۔

اِن گارمنٹ فیکٹریوں کے تیار کردہ لباس امریکا اور یورپ کی لباس تیار کرنے والی مشہور فیشن ایبل کمپنیاں عام مارکیٹ میں پیش کرتی ہیں۔ اِس وقت بنگلہ دیش کے ملازمین اِس کوشش میں ہیں کہ وہ ایک متحدہ یونین تشکیل دے کر تمام ملازمین کے لیے مساوی حقوق کی جدوجہد شروع کریں لیکن اِس کی تشکیل میں انہیں مختلف مسائل کا سامنا ہے۔ پانچ ہزار فیکٹریوں میں صرف دس فیصد میں مزدور یونینز موجود ہیں۔