1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دینی مدارس کڑی چھان بین کی زَد میں

فرید اللہ خان، پشاور24 فروری 2015

خیبر پختونخوا حکومت نے امن و مان برقرار رکھنے کے لیے دیگر اقدامات کے ساتھ ساتھ صوبے می‍‍ں قائم دینی مدارس اور ان می‍ں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا اور اساتذہ کی چھان بین شروع کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/1Egba
کم عمر بچیاں ایک مقامی مدرسے میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں
کم عمر بچیاں ایک مقامی مدرسے میں قرآن مجید کی تعلیم حاصل کر رہی ہیںتصویر: DW/F. Khan

ان مدارس میں زیر تعلیم غیر ملکی طلبا اور اساتذہ کو اپنے ممالک سے این او سی لینے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اس مہم کے دوران اب تک مساجد کے 480 سے زائد افغان اماموں کو دستاویزات نہ ہونے کی بناء پر ملک بدر کیا گیا ہے جبکہ 80 سے زائد کے بارے می‍ں تحقیقات جاری ہیں۔ یہ افغان باشندے پشاور کے مختلف علاقوں کے دینی مدارس میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ مختلف مساجد میں پیش امام کے طور پر تعینات تھے۔

خیبر پختون‍خوا میں 4680 مدارس ہیں، جن میں لڑکیوں کے لیے مختص مدارس کی تعداد 887 بتائی جاتی ہے
خیبر پختون‍خوا میں 4680 مدارس ہیں، جن میں لڑکیوں کے لیے مختص مدارس کی تعداد 887 بتائی جاتی ہےتصویر: DW/F. Khan

خیبر پختون‍خوا میں 4680 مدارس ہیں، جن میں لڑکوں کے لیے 3795 جبکہ لڑکیوں کے لیے 887 مدارس ہیں۔ ان مدارس میں 1077صوبائی حکومت کے ساتھ رجس‍ٹرڈ ہیں جبکہ دیگر کو بار بار نوٹس دینے کے باوجود رجسٹریشن نہیں کی گئی۔ جب اس سلسلے میں وفاق المدارس کی مجلس شوریٰ کے رکن اور عالم دین مفتی کفایت اللہ سے ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا:’’ہم حکومت کے ساتھ ہر طرح سے تعاون کے لیے تیار ہی‍ں۔ حکومت کی ہر شرط مانتے ہیں۔ مدارس کو اوپن کرنے کے لیے تیار ہیں۔ تمام مالی اُمور کا باقاعدہ آڈٹ کیا جاتا ہے، وہ حکومتی اداروں کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں، نصاب انہیں دکھا سکتے ہیں۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں ’باہر سے کوئی فنڈز نہیں ملتے، یہاں کے مخیر لوگ نام خفیہ رکھنے کی استدعا کر کے امداد کرتے ہیں کیونکہ حکومتی ادارے انہیں تنگ کرتے ہیں، یہ بھی ان کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن ہم نے رجسٹریشن کے لیے طریقہٴ کار سہل بنانے کا مطالبہ کیا اور اگر انہوں نے یہ طریقہ آسان نہیں بنایا تو ہم پورے ملک میں احتجاج کریں گے‘۔ مفتی کفایت اللہ کا کہنا تھا کہ ’اگر دیگر تعلیمی اداروں میں غیر ملکی پڑھ سکتے ہیں تو مدارس میں کیوں نہیں؟ ہم مدارس کی داخلی اور خارجی خود مختاری کو یقینی بنانا چاہتے ہی‍ں‘۔

دوسری جانب پشاور کے علاقے باڑہ گیٹ میں واقع ایک دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم ایک افغان طالب علم امیر حمزہ سے جب اس سلسلے میں بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا:’’ہم یہاں پیدا ہوئے، یہاں بڑے ہوئے، ہم اس ملک کو اپنا ملک سمجھتے ہیں، یہ جو حکم ہے، ہمارے لیے نہیں۔ ہم تو باقاعدہ یہاں رہنے کے لیے اجازت لے چکے ہیں اور حکومتی اداروں کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں لیکن یہاں دینی تعلیم مکمل کرکے ہی جائیں گے۔‘‘

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں لڑکوں کے لیے خیبر پختون‍خوا میں 3795 مدارس قائم ہیں
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق خیبر پختونخواہ میں لڑکوں کے لیے خیبر پختون‍خوا میں 3795 مدارس قائم ہیںتصویر: DW/F. Khan

اسی طرح ایک اور افغان طالب علم احمد یا ر کا کہنا تھا "اگر افغان تاجر یہاں تجارت کرسکتا ہے افغان یہاں کے انگریزی سکولوں میں تعلیم حاصل کررہے ہیں اور یہاں کے اعلیٰ تعلمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں تو دینی مدارس میں افغان طلبا اور اساتذہ پر اعتراض سمجھ سے بالاتر ہے لیکن یہ حکومت پاکستان کسی اور کی ایماء پر کر رہا ہے، جو ہمیں منظور نہیں۔ ہم حکومتی پالیسیوں کا احترام کرتے ہیں۔ دینی مدارس میں کوئی دہشت گرد نہیں ہے۔ افغان ہوں یا پاکستانی یہ سب پُرامن لوگ ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مدارس صدیوں سے قائم ہیں لیکن دہشت گردی نائن الیون سے شروع ہوئی، اس میں دینی مدارس کا کوئی قصور نہیں، حکومت اور ادارے انہیں نشانہ نہ بنائیں۔‘‘

خیبر پختونخوا میں اٹھارہ سو ساٹھ کے سوسائٹی ایکٹ کے تحت مدارس سمیت دیگر فلاحی تنظیموں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے تاہم اس کا طریقہٴ کار انتہائی پیچیدہ ہے جس کی وجہ سے مدارس کے منتظمین کی جانب سے حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اس طریقہ کار کو آسان بنایا جائے۔

صوبائی حکومت نےآرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد سرکاری اور نجی سکولوں کی سکیورٹی سخت کرنے کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جبکہ اس دوران صونے کے ہزاروں دینی مدارس کو باقاعدہ رجسٹریشن کرنے کے ساتھ ساتھ غیر ملکی طلبا اور اساتذہ کی رجسٹریشن کی ہدایت کی گئی جبکہ ان مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی نگرانی بھی شروع کی گئی ہے۔ اسی طرح آرمی پبلک سکول پر حملے کے بعد

صوبے میں مقیم غیر قانونی افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاون شروع کیا ہے اس دوران تین ہزار سے زیادہ اف‍غان باشندے واپس چلے گئے جبکہ پندرہ سو سے زیادہ کو ڈی پورٹ کیا گیا۔