دھرنے میں شریک سینکڑوں مظاہرین گرفتار
13 ستمبر 2014سابق کرکٹر عمران کی سیاسی جماعت تحریک انصاف کے ایک رہنما جہانگیر ترین نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب پولیس نے چھاپے مار کر ان کی جماعت کے کارکنوں کی ایک بڑی تعداد کو گرفتار کر لیا ہے۔ جمعہ 12 ستمبر کو شروع ہونے والے چھاپوں کو یہ سلسلہ آج ہفتے کے روز بھی جاری رہا۔
دوسری طرف حکومت مخالف عوامی تحریک کے سربراہ علامہ طاہر القادری نے بھی پولیس پر اپنے حامیوں کی گرفتاریوں کا الزام عائد کیا ہے۔ طاہر القادری نے مقامی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حکومت کا خاتمہ بہت قریب ہے۔
اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے ریڈ زون میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری گزشتہ ایک ماہ سے اپنے ہزاروں حامیوں کے ساتھ دھرنا دیے ہوئے ہیں۔ دونوں رہنماؤں کا الزام ہے کہ وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف گزشتہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی کے باعث اقتدار میں آئے تھے۔ ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جب تک نواز شریف اپنے عہدے سے استعفےٰ نہیں دیتے اور دھاندلی کے الزامات کی تحقیقات کے علاوہ انتخابی اصلاحات نہیں کی جاتیں وہ دھرنا ختم نہیں کریں گے۔ اس صورتحال کے باعث 180 ملین سے زائد آبادی والا یہ ملک سیاسی جمود کا شکار ہو کر رہ گیا ہے۔
عدالت کی طرف سے گرفتار مظاہرین کو جیل بھیجنے کا حکم
دوسری طرف اسلام آباد کی ایک عدالت نے اپوزیشن کے گرفتار شدہ 100 کارکنوں کو دو ہفتوں کے لیے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ ان کارکنوں کو غیر قانونی مظاہروں کے الزام میں جیل بھیجنے کا حکم سنایا گیا ہے۔ اس عدالتی حکم کے بعد مظاہرین اور پولیس کے درمیان صورتحال مزید کشیدہ ہو گئی۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سینکڑوں افراد نے اسلام آباد کی اس عدالت کے باہر جمع ہو گئے۔ بعض مظاہرین نے اس موقع پر پولیس کی ایک ویگن کو آگ لگنے کے علاوہ ٹائر جلا کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا۔ یہ مظاہرین ’گو نواز گو‘ کے نعرے بھی لگا رہے تھے۔ تاہم قریب ڈھائی گھنٹے تک وہاں احتجاج کرنے کے بعد یہ مظاہرین پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔
کوئٹہ میں کار بم دھماکا، تین افراد ہلاک
ادھر پاکستان کے جنوب مغربی صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں آج صبح ہونے والے ایک کار بم دھماکے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد ہلاک جبکہ 24 دیگر زخمی ہو گئے۔
پولیس کے ایک اعلیٰ اہلکار عبدالرزاق چیمپ نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ کوئٹہ کے ایک بازار میں یہ دھماکا اس وقت ہوا جب سکیورٹی فورسز کی ایک گاڑی وہاں سے گزر رہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہلاک ہونے والوں میں ایک پیراملٹری اہلکار جبکہ دو عام شہری ہیں۔ عبدالرزاق کے مطابق دھماکے کے وقت بازار کی زیادہ تر دکانیں بند تھیں، ورنہ بہت زیادہ جانی نقصان ہو سکتا ہے۔
اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی نے قبول نہیں کی۔ حکام کے مطابق ذمہ داروں تک پہنچنے کے لیے تفتیش کا عمل جاری ہے۔