1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دوسروں کو نصیحت، خود میاں فضیحت

سعدیہ احمد
18 دسمبر 2020

آپ نے اپنے آس پاس ایسے لوگ ضرور دیکھے ہوں گے، جو مفت مشورے بانٹتے ملتے ہیں۔ سعدیہ احمد کا بلاگ۔

https://p.dw.com/p/3mu0m
DW Urdu Bloggerin Saadia Ahmed
تصویر: Privat

بچپن سے ہمارا وزن کبھی ایک جگہ نہیں ٹکا۔ جیسا کہ کھانے پینے سے ہمیشہ ہی شغف رہا ہے لہذا کبھی خوشی کبھی غم جیسی کیفیت رہی ہے۔ گال کبھی پھول جاتے ہیں تو کبھی خود ہی اندر دھنس جاتے ہیں۔ جیسا کہ عرض کیا یہ سلسلہ تین دہائیوں پر محیط ہے، ہمارے بچپن میں یہ مشورے والدہ کو ملا کرتے تھے اور ہمارے جوان ہونے کے بعد مشورے کی ان توپوں کا رخ ہماری طرف ہو گیا۔

'اسے بادام کھلایا کرو۔‘

’ہر وقت زرد رنگ رہتا ہے اس کا۔ لگتا ہے انار نہیں کھاتی۔‘

’بیٹا، لڑکیاں تو نازک ہی اچھی لگتی ہیں۔ ایسے میں رشتہ کیسے ہو گا؟‘

جی، جتنے منہ اتنی باتیں۔ زیادہ تر یہ مشورے ان آنٹیوں کی طرف سے آتے تھے جن کے اپنے بچے ہم سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔ ایک آنٹی کا بیٹا گھر کا کھانا ہی نہیں کھاتا تھا تو دوسری کی بیٹی کھیلتی نہیں تھی کہ وہ تھک جاتی تھی۔ قصہ مختصر، اپنا گھر دیکھے بغیر 'فلاح عامہ‘ ہمارا پسندیدہ کھیل ہے۔ ہمیں اس بات سے غرض نہیں کہ آیا دوسرے کو ہمارا مشورہ درکار ہے بھی یا نہیں۔ کہیں ہمارے مشورے سے کسی کے پرانے زخم تو نہیں ہرے ہو جائیں گے؟ کیا ہمیں اس شخص کی زندگی کے حالات کا اندازہ ہے؟ اگر ان تمام سوالوں کا جواب نفی میں ہے تو ہمارے لیے یہ مشورہ دینا اس قدر اہم کیوں ہے؟

ریاست کا عورت سے نامحرم جیسا فاصلہ 

جنازے فیصلہ نہیں کرتے

مشوروں کی یہ بمباری اس صورت میں مزید شدت اختیار کر لیتی ہے جب مشورہ دینے والے کو احساس ہو کہ سننے والے کے پاس ان کی بات سننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر مشورے یا تو عمر میں بڑے لوگوں کی طرف سے آتے ہیں یا ان کی طرف سے جنہیں معاشرے میں علم اور رتبے والا سمجھا جاتا ہو۔ بہت سے لوگ نو سو چوہے کھانے کے بعد بڑھاپے میں خدا کی راہ پر چلنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو اپنی آخرت سے زیادہ دوسروں کو تلقین کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سب جو انہیں دنیا میں سب کچھ دیکھ لینے کے بعد پتہ چلا، چاہتے ہیں کہ نوجوان نسل کے ابھی سے سینوں میں اپنی جگہ پا لیں۔

یوں تو بات ذرا آئی گئی ہو گئی ہے لیکن شاید کچھ عرصہ پہلے وزیر اعظم پاکستان عمران خان صاحب کی تقریر بھی آپ کی سماعتوں سے گزری ہو جس میں انہوں نے طلاق کے رجحان کو مغربی کہا۔ یہاں کے خاندانی نظام کی طرف میں زمین آسمان کے قلابے ملائے۔ یہ وہی خان صاحب ہیں جنہوں نے خود بھی طلاق کی تکلیف سہی۔ ایک انگریز خاتون سے ہی پہلی شادی کی اور ان کے بچے بھی تاحیات انگلستان میں ہی مقیم ہیں۔ زندگی یوں کھل کے جی جیسے ہر دن آخری ہو۔ لیکن مشورے کے وقت ان کو بھی یاد آیا کہ اب فوراﹰ قوم کو اس کے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جائے۔

آج ایک فیس بک گروپ پر بھی کچھ ایسی ہی بات دیکھی جس میں ایک خاتون طلاق یافتہ لڑکیوں کو اپنی ازدواجی زندگی کا ذمہ دار ٹھہرایا رہی تھیں۔ چند دن پہلے سابقہ فلم اسٹار نور بخاری کا ایکٹریس منال خان کی پوسٹ کے نیچے ایک کمنٹ دیکھا جس میں انہوں نے انہیں دین کی راہ لگنے کی تلقین کی۔ اور یہ رویہ ہم نے اپنے گھروں میں بھی اکثر روا دیکھا ہے۔

ہم اپنے کام سے کام کیوں نہیں رکھ سکتے؟ معاشرے کے سدھار سے پہلے اپنی زندگی کی فکر کیوں نہیں کر سکتے؟ ان سوالوں کے جوابات ذرا پیچیدہ ہیں۔

بچپن کا ایک قصہ یاد آ گیا جب ہمارے اسکول کا ہیڈ بوائے سب کو یونیفارم کے سلسلے میں جرمانہ کیا کرتا تھا۔ ایک دن ایک چھوٹے بچے نے ہیڈ بوائے کی رنگ برنگی جرابوں کی طرف اشارہ کیا تو اس نے آئندہ کسی کو ایسا نہیں کہا۔ اوروں کو نصیحت کرنے والے عام طور پر میاں  فضیحت ہی کہلاتے ہیں۔ عزت اسی میں ہے کہ اپنے کام سے کام رکھا جائے اور لوگوں کو ان کی زندگی جینے دی جائے۔ ہر کوئی اپنی غلطیوں سے خود سیکھے تو سبق دیرپا رہتا ہے۔ آج تک بھاشن کس کو بھایا ہے؟