1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تاريخعالمی

دور جدید میں ترقی کا نظریہ اور اس کے سماجی اثرات

5 فروری 2023

نظریات ہر دور میں سماجی ضرورت اور حالات کے تحت پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی مدد سے تبدیلی کے عمل کو سمجھا جاتا ہے۔ پروگریس (ترقی) کا نظریہ فرانسیسی مفکر اوگسٹ کانٹ نے انیسویں صدی میں پیش کیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4N7ex
ڈاکٹر مبارک علی
ڈاکٹر مبارک علیتصویر: privat

اس کے پس منظر میں یورپی تاریخ کی پوری معلومات تھیں۔ یورپ کی سوسائٹی میں اس وقت تبدیلی کا عمل شروع ہوا، جب 1492ء میں امریکہ کو دریافت کیا گیا اور یورپ کے ملکوں نے نئے تجارتی راستوں کی دریافت شروع کی۔ انگلستان، فرانس اور ہالینڈ نے تجارتی کمپنیاں قائم کیں اور ایشیائی ملکوں سے تجارت شروع کی۔

 ان سرگرمیوں کی وجہ سے نہ صرف ایشیا اور افریقہ کے ملکوں سے واقفیت ہوئی بلکہ سیاحوں اور ملاحوں نے ایسے قبائل کو دریافت کیا، جو اب تک تہذیب کے ابتدائی دور میں تھے۔ مثلاً شمالی امریکہ میں جب ان کا واسطہ ریڈ انڈینز سے پڑا تو اہل یورپ نے ان کے مقابلے میں خود کو تہذیبی طور پر برتر پایا۔

 اس سے انہوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانی معاشروں کی ترقی مرحلہ وار ہوتی ہے۔ وہ ترقی کر کے مہذب بن گئے، جبکہ یہ تہذیب کے ابتدائی مراحل میں ہیں۔ اس مقابلے کی وجہ سے ان میں پروگریس یا ترقی کا احساس پیدا ہوا۔ جدید دور میں آثار قدیمہ کی دریافتوں نے بھی یہ ثابت کیا انسان مختلف ادوار میں تہذیب کے مختلف مدارج پر تھا۔ اس سے بھی موجودہ دور میں یہ احساس پیدا ہوا کہ پروگریس یا ترقی ارتقائی طور پر تشکیل ہوئی ہے۔

 اس نظریے کو اس وقت تقویت پہنچی، جب 1859ء میں ڈاروین کی کتاب’’اوریجن آف دا سپیسیز‘‘  شائع ہوئی۔ اس میں انسانی ارتقاء کی درجہ بدرجہ سائنسی بنیادوں پر تاریخ کو بیان کیا گیا ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی تاریخ ایک جگہ ٹھہری ہوئی نہیں رہتی ہے بلکہ مسلسل بدلتی رہتی ہے۔

 ڈاروین نے نیچرل سلیکشن کا نظریہ بھی پیش کیا۔ یعنی وہ مخلوق زندہ رہی، جس نے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو باقی رکھا جو حالات کا مقابلہ نہیں کر سکے وہ ختم ہو گئے۔ ہیربرٹ سپینسر (d.1903) نے اسے Survival of the Fittest کہہ کر اس نظریے کو تقویت دی۔

انسانی جذبات کا سیاسی اور سماجی حالات پر اثر

پروگریس کے ارتقائی نظریے کے تحت یورپ کے مفکرین نے اپنی تاریخ کا جائزہ لیا اور تاریخی عمل کو صحت مند قرار دیتے ہوئے یہ پشین گوئی بھی کی کہ یورپ ترقی کی اس منزل پر پہنچ جائے گا، جہاں خوشحالی اور امن و امان ہو گا۔

 اس تصور میں سینٹ آگسٹین (d.430AD) کا ’’سٹی آف گاڈ‘‘ کا نظریہ جھلکتا ہے۔ مثلاً ہیربرٹ سپینسر نے اس یوٹوپیائی تصور کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ پروگریس جیسے جیسے آگے بڑھے گی، دنیا سے جنگیں اور خونریزی ختم ہو جائیں گی۔

ناانصافی کا وجود باقی نہیں رہے گا اور نہ ہی نفرت اور تعصبات کے لیے کوئی جگہ ہو گی۔ انسانی شعور میں اضافہ ہو گا اور وہ ایک ایسی دنیا تعمیر کرے گا کہ جہاں وہ خوشی، مسرت اور امن کی زندگی گزار دے گا۔

کارل مارکس (d.1883) نے بھی تاریخ میں ارتقائی پروگریس کا ذکر کیا ہے اور اسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ مثلاً پہلا دور غلامی ہے، اس کے خاتمے کے بعد فیوڈل ازم ہے۔ اس کے بعد سرمایہ دارانہ نظام ہے۔ اس کا خاتمہ سوشل ازم کرے گا اور پھر کمیونزم کا دور آئے گا، جس میں ریاست کا خاتمہ ہو جائے گا اور سوسائٹی میں طبقاتی فرق بھی باقی نہیں رہے گا۔

 اس عہد میں انسان پوری طرح سے آزاد ہو گا اور اپنی خواہش اور مرضی کے مطابق زندگی گزار سکے گا۔ یعنی صبح وہ موسیقی سے لطف اندوز ہو گا، دوپہر کو فلسفے کا مطالعہ کرے گا اور شام کو تفریح کے لمحات گزارے گا۔

قومی کلچر کی تشکیل

انیسویں صدی کے یورپ میں پروگریس کا نظریہ نسل پرستی سے جڑ گیا۔ اگرچہ روشن خیالی کے دور میں وولٹائر (d.1778) اور ڈیوڈ ہم (d.1776) نے اس بات کا اظہار کیا کہ سفید فام اقوام دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ مہذب، باشعور اور ذہنی طور پر برتر ہیں۔

 سفید فام اقوام کی برتری کے اس نظریے نے اس وقت تقویت پائی، جب آرتھر گوبینیو (d.1882) نے ''دا ان ایکوئلٹی آف ہیومن ریسز‘‘ شائع کی۔ اس میں نہ صرف سفید فام اقوام کی برتری کو ثابت کیا گیا ہے بلکہ جرمن قوم کو سب سے زیادہ افضل بنایا گیا ہے۔

انیسویں صدی تک یورپ کی پروگریس بغیر کسی رکاوٹ کے جاری تھی۔ صنعتی انقلاب نے جب زائد پیداوار شروع کی تو اس کی کھپت کے لیے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کیا گیا اور یورپی مفکرین کو ایسا لگا کہ مستقبل کا سنہری زمانہ زیادہ دور نہیں ہے۔

 لیکن یہ خواب اس وقت چکناچور ہو گئے، جب یورپی اقوام سیاسی اور معاشی طور پر ایک دوسرے کے مخالف ہوتے چلے گئے، جس کا نتیجہ 1914ء میں پہلی عالمی جنگ کی صورت میں نکلا۔ اس نے نہ صرف پروگریس کے تمام راستے بند کر دیے بلکہ اب تک جو پروگریس ہوئی تھی، وہ بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی اور پھر دوسری عالمی جنگ نے مزید تباہی اور بربادی کی۔

برصغیر میں ہجوم کا حصہ بننے کی ثقافت

اس کے بعد سے یورپی ملکوں نے علمی، ادبی، معاشی اور سیاسی ترقی کے بجائے اسلحہ سازی پر توجہ دی۔ اس وقت ان کے پاس تباہی کے اس قدر مہلک ہتھیار ہیں، جو دنیا کو پلک جھپکتے ختم کر سکتے ہیں۔

 اس کے آگے اب مستقبل میں کسی سنہری دور کی امید نہیں رہی بلکہ دنیا اس خوف کا شکار ہے کہ یہ مہلک ہتھیار اس کی تباہی کا باعث نہ بن جائیں۔  لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح انسانی سماج امید سے ناامیدی میں داخل ہوتا ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔