1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

انسانوں میں لیکٹوز برداشت کب سے پیدا ہوئی؟

29 جولائی 2022

ایک تازہ ترین سائنسی مطالعے کے مطابق انسانوں میں ’لیکٹوز ٹالرنس‘ یا دودھ میں پائی جانے والی شکر کے لیے جسم میں برداشت کی ابتدا کے بارے میں اب تک پائے جانے والے مفروضے غلط ثابت ہوئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4ErPy
Frau giesst sich aus einer Karaffe ein Glas Milch ein
تصویر: BilderBox/McPhoto/blickwinkel/picture alliance

اب تک خیال کیا جاتا تھا کہ لیکٹوز برداشت کا ارتقا تب ہوا جب قبل از تاریخ انسانوں نے دودھ پینا شروع کیا۔ کیا یہ مفروضہ صحیح ہے؟ ایک نیا مطالعہ اس مفروضے کو غلط ثابت کرتا ہے۔

اس وقت صرف ایک تہائی بالغ افراد ہی لیکٹوز کو ہضم کر سکتے ہیں۔کئی سالوں تک محققین اس مفروضے پر قائم تھے کہ انسانوں میں دودھ کے اندر پائی جانے والی شکر یعنی لیکٹوز کے ہاضمے کی صلاحیت اُس وقت سے پیدا ہوئی جب قبل از تاریخ کے ہمارے آباؤ اجداد نے دودھ پینا شروع کیا۔ اس سلسلے میں ایک نیا مطالعہ ایک نئی حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔

 کیا آپ کے اندر 'لیکٹوز انٹولرنس‘ یا دودھ میں پائی جانے والی شوگر کے لیے عدم برداشت پائی جاتی ہے؟ اس بات کے قوی امکانات پائے جاتے ہیں لیکن آپ اکیلے اس مسئلے سے دوچار نہیں۔ قریب پانچ ہزار سال قبل زیادہ تر انسانوں میں لیکٹوز کی عدم رواداری  پائی جاتی تھی۔ با زبان دیگر زیادہ تر لوگوں کو دودھ ہضم نہیں ہوتا تھا۔

لندن کے یونیورسٹی کالج اور برسٹل اور برسٹل یونیورسٹی کے محققین کی جریدے نیچر میں حال ہی میں شائع ہونے والی ایک نئی تحقیق سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ انسانوں میں لیکٹوز کو ہضم کرنے کی صلاحیت دودھ کے استعمال کی شروعات کے پانچ ہزار سال بعد عام نظر آتی ہے۔ یعنی انسانوں کی طرف سے دودھ کے استعمال کے اولین آثارکے پانچ ہزار سال بعد جو کہ تقریباً چھ ہزار سال قبل مسیح بنتی ہے۔

بھارتی گایوں کے دودھ میں سونا نہیں، مودی حکومت کا اعتراف

محققین نے کمپیوٹر ماڈلنگ کے نئے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئےیہ نتیجہ بھی اخذ کیا کہ دودھ کا استعمال لیکٹوز برداشت میں اضافے کی وجہ نہیں ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے ایک محقق اور مذکورہ مطالعے کے مصنف مارک تھومس نے ڈوئچے ویلے کو بتایا،''میں شماریاتی ماڈلنگ کے اس طریقہ کار کے بارے میں پرجوش ہوں جو ہم نے تیار کیا ہے۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، اس سے پہلے کسی نے ایسا نہیں کیا۔‘‘

USA | Milch | Milchproduktion in den USA | Thumbnail
مغربی ممالک میں دودھ کی پیداوار اور اسے محفوظ رکھنے کے بہتر طریقے موجود ہیںتصویر: Jerry Holt/ZUMA Wire/imago images

لیکٹوزعدم برداشت کیا ہے؟

فطری طور پر تمام بچے عام طور پر لیکٹوز کو ہضم کر سکتے ہیں۔ لیکن ان میں سے اکثر کے لیے، ماں کا دودھ چھڑانے کے بعد یہ صلاحیت ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔آج تقریباً دو تہائی افراد لیکٹوز ہضم نہیں کر سکتے۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ دودھ میں موجود اہم شکر کو ہضم نہیں کر پاتے۔ ایسے افراد لیکٹیس نامی انزائم پیدا نہیں کر سکتے، جو لییکٹوز کو توڑ دیتا ہے۔ جب یہ انزائم غائب ہوتا ہے، تو لیکٹوز بڑی آنت میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کرتا ہے اور وہاں یہ بیکٹیریاز کی مرغوب غذا بن جاتا ہے۔ اس کے ناخوشگوار ضمنی اثرات کا مرتب ہوتے ہیں، جیسے کہ پیٹ کا درد، گیس کا اخراج  یا اسہال وغیرہ ۔ ان علامات کو مل کر لیکٹوز عدم برداشت کہا جاتا ہے۔

 حیران کن نتائج

اس تحقیق کے نتائج اس وسیع خیال کے برعکس ہیں کہ ہمارے قبل از تاریخ کے آباؤ اجداد کی ڈیری مصنوعات کی کھپت ایک جینیاتی تغیر کے ارتقا کا باعث بنی جس کی وجہ سے وہ بالغ ہونے کے بعد بھی لیکٹوز کو ہضم کر سکتے ہیں۔

اس مفروضے کا جزوی طور پر لیکٹوز برداشت کے صحت سے متعلق مبینہ فوائد کی مارکیٹنگ سے پتا لگایا جا سکتا ہے۔ سالوں سے، دودھ کی کمپنیوں، ڈاکٹروں اور یہاں تک کہ غذائیت کے ماہرین نے دودھ اور ڈیری کو وٹامن ڈی اور کیلشیم کے اہم سپلیمنٹس اور غیر آلودہ پانی کے اچھے ذرائع کے طور پر فروخت کیا ہے۔

لیکن محققین نے برطانیہ میں لوگوں کے ڈی این اے اور طبی معلومات کے ایک بڑے سیٹ کا تجزیہ کرنے کے بعد ان خیالات کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ مارک تھومس نے کہا کہ انہوں نے تحقیق سے پتا چلایا کہ لیکٹوز کو برداشت کرنے یا اس کی عدم برداشت کے اثرات انسانوں کی صحت پر نہیں پڑتے۔  یا انسانوں کے اندر کیلشیم کی سطح  کا دارومدار اس پر نہیں ہوتا کہ وہ دودھ پیتے ہیں یا نہیں۔

ہندو اساطیر میں دودھ صرف پینے کی چیز نہیں

Symbolbild I Milch I Afrika
افریقہ میں گرمی کی شدت اور حفظان صحت کی ابتر صورتحال پائی جاتی ہےتصویر: BSIP/picture alliance

لیکٹیس کا مسلسل ارتقا کیوں؟

محقق تھومس مارک کہتے ہیں کہ جینیاتی مطالعات سے پتا چلتا ہے کہ ''لیکٹیس گزشتہ 10 ہزار سالوں میں ارتقا سے گزرنے والا ایسا انزائم ہے جو جین کی واحد چنندہ خصوصیت رکھتا ہے۔‘‘ تقریباً 10 ہزار سال قبل لیکٹوز ) جو جین میں انکوڈڈ( ہوتی ہے ہضم کرنے کی صلاحیت رکھنے والے انسانوں کی تعداد تیزی سے بڑھنا شروع ہوئی تھی۔ محققین نے یہ دریافت کرنے کے بعد کہ دودھ کی کھپت سماجی اور اقتصادی ترقی سے پیچھے نہیں تھی محققین نےدو متبادل مفروضوں کا تجزیہ کیا۔

ایک مفروضہ یہ تھا کہ جب انسانوں کو زیادہ جراثیموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو نئے متعدی ایجنٹس کے ساتھ مل کر لیکٹوز عدم برداشت مہلک یا جان لیوا شکل اختیار کر سکتی ہے۔

دوسرے مفروضے کا تعلق قحط سے تھا۔ جب قبل از تاریخ لیکٹوز عدم برداشت رکھنے والی آبادیوں کی طرف سے فصلیں اگانے کی کوششیں ناکام ہو ئیں تو دودھ کی مصنوعات ان معاشروں کی پرورش کا واحد ذریعہ بن گئیں۔ محقق مارک تھومس کے بقول،'' اگر آپ ایک صحت مند فرد ہیں اور آپ کو اسہال ہو جائے تو یہ صرف شرم کی بات ہوتا ہے لیکن غذائیت کی قلت کے شکار ایک شخص کو اگر اسہال شروع ہو جائے تو اُس کی موت واقع ہو سکتی ہے۔‘‘

یہ مطالعہ زیادہ تر یورپی معاشروں اور آبادیوں پر مرکوز ہے۔ ابھی دوسرے براعظموں کے لیے اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے، افریقی ممالک میں قدیم ڈی این اے کو تلاش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ گرمی ہوتی ہے۔ گرمی کی شدت پر اس امر کا انحصار ہوتا ہے کہ آیا ڈی این اے بچ پاتا ہے۔‘‘ یہ کہنا ہے مارک تھومس کا۔

ک م/ ع ت ) اسٹیبان پاردو(