’دو سال میں پچاس انٹرویو دیے، چپراسی کی نوکری بھی نہ ملی‘
11 مارچ 2019بھارتی نوجوان وشال چوہدری کے پاس روشن عزائم بھی ہیں اور ایم بی اے کی ڈگری بھی، کمی ہے تو صرف نوکری کی۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چيت کرتے ہوئے چوہدری نے بتايا، ’’میں نے پچھلے ایک سال میں تقريباً پچاس انٹرویوز دیے ہیں۔ تاہم ميں ملازمت کے حصول ميں کامیاب نہ ہو سکا۔ ايک کمپنی نے مجھے نوکری پر رکھا تاہم پھر اس نے بھی کئی لوگوں کو فارغ کر ديا اور ميں پھر اسی مقام پر پہنچ گيا، جہاں سے ميں نے شروع کيا تھا۔ جب پریشانی حد سے بڑھ گئی، تودلبرداشتہ ہو کر میں بھی ان تيئس ہزار دارخواست گزاروں کا حصہ بن گیا، جو پانچ سرکاری نوکریوں کے لیے اپنی قسمت آزما رہے تھے۔‘‘
بھارت ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ہے ليکن وہاں روزگار کی منڈی میں یہ اعداد و شمار غیر معمولی نہیں ہیں۔ پچھلے سال بھی بھارتی ریلوے کی تريسٹھ ہزار ملازمتوں کے لیے انيس ملین درخواستیں جمع کرائی گئی تھيں۔ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے میں نئی دہلی حکومت زيادہ کامياب دکھائی نہيں ديتی۔ يہی وجہ ہے کہ وزير اعظم نريندر مودی کا ووٹ بینک بھی اس سے متاثر ہو سکتا ہے۔ بھارت میں اس سال گيارہ اپریل سے انيس مئی تک انتخابات ہوں گے جبکہ ان کے نتائج کا اعلان تيئس مئی کو متوقع ہیں۔
بھارت کو جدید خطوط پر استوار کرنے اور یقینی روزگار فراہم کرنے کے وعدے کے ساتھ نریندر مودی نے سن 2014 میں بھارتی وزير اعظم کا عہدہ سنبھالا تھا۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے وعدہ کیا گیا تھا کہ ملک ميں ہر ماہ ايک ملین نئی ملازمتيں سامنے آئيں گی۔ مگر یہ وعدہ وفا نہیں ہو پایا۔ بھارت کی پينسٹھ فیصد آبادی پينتيس سال سےکم عمر افراد پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں ملکی کی اقتصادی نمو کی شرح بھی آٹھ فیصد سے کم رہی، جو ملازمت کے نئے مواقع کے ليے درکاری ہوتی ہے۔ بھارت کے ایک اخبار نے حکومت کی ايک خفيہ رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ ملک ميں بے روزگاری کی شرح سن 1970 کے بعد اپنی بلند ترين سطح پر ہے۔
بھارتی حزب اختلاف کی کانگریس پارٹی کے سربراہ راہول گاندھی کے مطابق، ’’اس تباہی کے ذمہ دار نریندر مودی ہیں۔ ان کی دو پالیسیوں کا بھارت کو بہت نقصان پہنچا ہے، جن میں ایک ’ڈی مونیٹائیزیشن(حکومت کا پرانی کرنسی کو نئی سے تبدیل کر دینا) اور دوسرا سروسز ٹیکس ہے۔‘‘
جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں پروفیسر سنتوش مہروترا نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں کہا، ’’نوجوانوں کے لیے تعلیم اور روزگار دو بہت اہم موضوعات ہیں۔ موجودہ حکومت ان کی فراہمی میں ناکام ہوگئی ہے۔ ايسی کارکردگی کے بعد حکومت ووٹ کی حقدار نہیں ہے۔‘‘