1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کے خشک ترین علاقوں میں سے ایک میں آبی کمی کا حل دھند

عاطف بلوچ Jane Chambers
15 جولائی 2018

خشک سالی کا شکار شمالی چلی کے کسان پانی کے ایک نئے اور اچھوتے ذریعے کو دریافت کر کے قحط سالی سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ نیا طریقہ يہ ہے دھند سے پانی پیدا کيا جائے اور اس مقصد کے لیے بڑی بڑی جالیاں استعمال کی جا رہی ہیں۔

https://p.dw.com/p/31TgM
Nordchile Dürre
عمومی طور ایک اسکوائر میٹر جتنی بڑی جالی یومیہ دو تا سات لیٹر پانی پیدا کر لیتی ہےتصویر: Jane Chambers

گزشتہ برس دسمبر سے  چلی کے شمالی علاقہ کوقویمبو کو سخت قحط کا سامنا تھا اور وہاں ہنگامی حالت نافذ تھی۔ اس علاقے کو ہمیشہ سے ہی خشک سالی کا سامنا رہا ہے اور اس کی وجہ وہاں بارش کا تقريباً نہ ہونا بھی ہے۔ اسی صورتحال سے نمٹنے کی خاطر وہاں کے کسانوں نے کاشت کاری کے لیے پانی کا ایک نیا ذریعہ دریافت کیا۔ اس نئے ذریعے میں یہ کسان بڑے بڑے جال یا جالیاں استعمال کرتے ہوئے دھند سے پانی حاصل کرتے ہیں۔

اس علاقے میں بہتے پانی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں ہے، نہ کوئی دریا اور نہ ہی کوئی نہر۔ یہاں کے لوگ بجلی کے ليے جنریٹر استعمال کرتے ہیں جبکہ مقامی حکومت ٹینکرز کے ذریعے وہاں کے باسیوں کو پانی کی فراہم کرتی ہے۔ تاہم مقامی لوگوں کے مطابق یہ پانی ان کی روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

اس نازک صورتحال کی وجہ سے کئی کنبے اس علاقے سے مہاجرت پر بھی مجبور ہو چکے ہیں۔ لیکن مقامی لوگوں کی کوشش ہے کہ قدرتی حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے نئے ذرائع سے پرانی مشکلات حل کرنے کی کوشش کی جائے۔

چلی کے لوس ٹومز کے علاقے میں پانی پیدا کرنے والی ایک نئی ٹیکنالوجی کے سبب امید پیدا ہوئی ہے۔ کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ نے اس علاقے میں متعدد آبادیوں کے ساتھ مل کر بڑی بڑی جالیوں کی مدد سے دھند پکڑ کر اس سے پانی پیدا کرنے کا منصوبہ شروع کیا ہے، جو ابھی تک کامیابی سے رواں دواں ہے۔

کاشت کاری کے لیے دھند

ڈانیالا ہینریکز کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ کے پبلک پالیسی شعبے سے منسلک ہیں۔ وہ دھند سے پانی پیدا کرنے والے منصوبے کی ٹیم کی ایک اہم رکن ہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ اس منصوبے کے تحت ایسی آبادیوں کا انتخاب کیا گیا، جو سمندر سے کم ازکم پچیس پچیس کلومیٹر دور تک واقع ہیں کیونکہ سمندر سے اتنی دور تک بہترین دھند حاصل کی جا سکتی ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں ڈانیالا کا مزید کہنا تھا کہ دھند سے پانی پیدا کرنے کا عمل قدرے آسان ہے۔ انہوں نے کہا کہ سمندر کے نزدیک پہاڑی علاقوں میں بڑے بڑے جال نصب کیے جاتے ہیں اور یہ جال دار نیٹس ہوا سے پیدا ہونے والی نمی کو پکڑ لیتے ہیں اور پھر یہ نمی یا دھند جالیوں کے نیچے موجود پلاسٹک کے بنے تھیلوں میں جمع کر لی جاتی ہے۔ یہ پانی ہی ہوتا ہے، جو بعد ازاں پائپوں کی مدد سے مطلوبہ مقامات تک پہنچا دیا جاتا ہے۔

دھند کی گاڑھے پن پر منحصر ہوتا ہے کہ اس سے کتنا پانی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ عمومی طور ایک اسکوائر میٹر جتنی بڑی جالی یومیہ دو تا سات لیٹر پانی پیدا کر لیتی ہے۔ ایک جالی کے بنانے اور اسے نصب کرنے پر تقریبا آٹھ ہزار ڈالر کا خرچہ آتا ہے۔ کيتھولک یونیورسٹی آف نارتھ مقامی حکومتوں کے ساتھ مل کر ان جالیوں کی تنصیب کا کام کر رہی ہے۔

ابھی یہ منصوبہ تجرباتی بنیادوں پر چلایا جا رہا ہے اور اس کی  کامیابی کی صورت میں چلی کے اس علاقے کی روایتی زندگی کو برقرار رکھتے ہوئے موسموں کے ساتھ مطابقت پیدا کی جائے گی اور مقامی لوگوں کے معیار زندگی کو بہتر بنایا جائے گا۔ ڈانیالا کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کی کامیابی کی خاطر مقامی لوگوں کو اس کا حصہ بنایا جائے۔ تاہم مقامی آبادی میں اقتصادی طور پر اتنی سکت نہیں کہ وہ دھند سے پانی پیدا کرنے کی خاطر ان جالیوں کو بنانے اور انہیں نصب کرنے کا خرچہ اٹھا سکیں۔