1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا میں اسلحے کی فروخت میں کچھ کمی

امجد علی1 فروری 2014

بین الاقوامی امن پر تحقیق کے ادارے SIPRI نے میونخ سکیورٹی کانفرنس کے موقع پر جاری کردہ اپنے اعداد و شمار کی مدد سے بتایا ہے کہ 2012ء میں مسلسل دوسرے برس دنیا بھر میں اسلحے اور فوجی خدمات کی فروخت میں کمی دیکھی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/1B1Dh
امریکا، روس، جرمنی، فرانس اور چین اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک ہیں، انفو گرافک میں دیکھیے کہ کون سے ممالک سب سے زیادہ اسلحہ خریدتے ہیں
امریکا، روس، جرمنی، فرانس اور چین اسلحہ برآمد کرنے والے پانچ بڑے ممالک ہیں، انفو گرافک میں دیکھیے کہ کون سے ممالک سب سے زیادہ اسلحہ خریدتے ہیں

سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہولم میں قائم اس ادارے نے اپنے یہ اعداد و شمار جمعہ اکتیس جنوری کو جاری کیے۔ اس ادارے کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے شروع کیے گئے اسلحہ بندی کے پروگراموں کی وجہ سے 2012ء میں روسی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے ہتھیاروں کی فروخت میں بڑے پیمانے پر اضافے کا رجحان دیکھنے میں آیا تاہم باقی دنیا میں اسلحے کی فروخت میں مسلسل دوسرے برس کچھ کمی دیکھنے میں آئی۔

’سِپری‘ کے مطابق جہاں 2012ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکا، کینیڈا اور بہت سے مغربی یورپی ملکوں کی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جانب سے ہتھیاروں کی فروخت میں کمی ہوئی، وہیں روسی کمپنیوں کی جانب سے اسلحے کی فروخت میں اٹھائیس فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھارت کے ایک دورے کے موقع پر وزیر اعظم من موہن سنگھ سے گفتگو کرتے ہوئے۔ سپری کے مطابق زیادہ تر روسی اسلحہ بھارت کو بیچا گیا ہے
روسی صدر ولادیمیر پوٹن بھارت کے ایک دورے کے موقع پر وزیر اعظم من موہن سنگھ سے گفتگو کرتے ہوئے۔ سپری کے مطابق زیادہ تر روسی اسلحہ بھارت کو بیچا گیا ہےتصویر: Reuters

ادارے کے مطابق روسی اسلحہ ساز کمپنیوں کے اس بڑھتے ہوئے کاروبار کے پیچھے دو ہزار گیارہ سے لے کر دو ہزار بیس تک کا سات سو ارب ڈالر کا اسلحہ بندی کا ریاستی پروگرام کارفرما ہے۔

SIPRI کے فوجی اخراجات اور اسلحے کی پیداوار کے پروگراموں کے شعبے کے ڈائریکٹر سَیم پَیرلو فریمین نے کہا کہ ’روسی اسلحہ ساز صنعت سوویت صنعت کے کھنڈرات کے سائے سے اب بتدریج باہر نکل رہی ہے‘۔ تاہم ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’روسی اسلحہ ساز صنعت ابھی بھی متروک آلات، غیر مؤثر انتظامی ڈھانچوں اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی بد عنوانی جیسے مسائل سے دوچار ہے اور یہ مسائل ٹیکنالوجی کے اعتبار سے مغربی دنیا کا مقابلہ کرنے کی روسی صلاحیت کو آئندہ بھی محدود بنائے رکھیں گے‘۔

پَیرلو فریمین نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے باتیں کرتے ہوئے کہا کہ اعداد و شمار سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ روسی اسلحہ کن ممالک کو فراہم کیا جاتا ہے تاہم یہ بات طے ہے کہ اس اسلحے کی بڑی مقدار براعظم ایشیا کو فراہم کی جاتی ہے۔ روس بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والا بڑا ملک ہے جبکہ ’سِپری‘ کے اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار آٹھ سے لے کر دو ہزار بارہ تک کے عرصے کے دوران بھارت دنیا بھر میں سب سے زیادہ مقدار میں اسلحہ درآمد کرنے والا ملک رہا۔ جہاں روس کو خانہ جنگی کے شکار عرب ملک شام کو اسلحہ فراہم کرنے والے ایک بڑے ملک کی حیثیت حاصل رہی ہے، وہیں چین اور وینزویلا بھی روسی اسلحہ خریدنے والے بڑے ملکوں میں شامل ہیں۔

سویڈن کے دارالحکومت میں قائم یہ ادارہ وقتاً فوقتاً اسلحے کی درآمدات و برآمدات کے بارے میں اعداد و شمار اور رپورٹیں جاری کرتا رہتا ہے
سویڈن کے دارالحکومت میں قائم یہ ادارہ وقتاً فوقتاً اسلحے کی درآمدات و برآمدات کے بارے میں اعداد و شمار اور رپورٹیں جاری کرتا رہتا ہے

سویڈن میں قائم اس ادارے کے مطابق 2012ء میں دنیا کی ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں نے 395 ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کیے اور یہ کہ یہ رقم گزشتہ سال کے مقابلے میں 4.2 فیصد کم ہے۔ اُس سے گزشتہ برس اسلحے کی فروخت میں 6.6 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ مجموعی اعتبار سے دیکھا جائے تو اسلحہ ساز کمپنیوں کی فروخت میں 2003ء کے بعد سے تقریباً تیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

دنیا کی ایک سو بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں کو اسلحے کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی کے اعتبار سے دیکھا جائے تو امریکا میں قائم کمپنیوں کا حصہ58 فیصد جبکہ مغربی یورپی ملکوں کا 28 فیصد رہا۔ ’سِپری‘ کے مطابق 2012ء کے دوران بہت سی امریکی کمپنیوں کی جانب سے اسلحے کی فروخت میں کمی کے سلسلے میں بڑا کردار 2011ء کے آخر میں عراق سے امریکی فوجوں کے انخلاء نے ادا کیا۔

اس رپورٹ میں ڈیٹا دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے چین کو شامل نہیں کیا گیا، جو ہتھیار تیار اور برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید