1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریض پاکستان میں

21 اپریل 2024

عالمی ادارہ صحت کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں ہیپاٹائٹس سی کے سب سے زیادہ مریض پاکستان میں ہیں جن کی تعداد 88 لاکھ ہے۔ ہیپاٹائٹس بی کے 38 لاکھ متاثرین کی شمولیت کے ساتھ یہ تعداد ایک کروڑ 26 لاکھ بنتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4ezBg
Symbolbild Hepatitis A Virus
تصویر: Frank Bienewald/imago images

 ان اعداد و شمار کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے حکومت سے قومی سطح پر ہیپٹائٹس کے خلاف آگاہی اور خاتمے کی مہم چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ڈی ڈبلیو اردو نے پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال، وجوہات، بچاؤ کی تدابیر اور سرکاری سطح پر اس کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات کا جائزہ لینے کی کوشش کی ہے۔

 پاکستان میں ہیپاٹائٹس کی صورتحال

عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہیپاٹائٹس کی مختلف اقسام میں سے ''سی‘‘ اور ''بی‘‘ سب سے زیادہ خطرناک ہیں اور پاکستان ان پانچ ممالک میں شامل ہے جہاں یہ دونوں وائرس سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔

تاہم ایسے مستند اعداد و شمار دستیاب نہیں جن سے واضح ہو کہ ہر سال کتنے پاکستانی ہیپاٹائٹس  کی مختلف اقسام کے سبب موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ مختلف اندازے اور غیر سرکاری رپورٹس یہ تعداد لاکھوں میں بتاتے ہیں۔

ضیاء الدین یونیورسٹی ہسپتال کراچی میں gastroenterology  شعبہ کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ضیغم عباس کے مطابق پاکستان میں تقریباً ’’سالانہ ایک لاکھ بیس ہزار افراد ہیپٹائٹس سے ہلاک ہوتے ہیں۔"

نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں ’’ہیپاٹائٹس از اسٹل اے میجر ہیلتھ کنسرن: شارٹ کمیونیکیشن‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ”2015 ء سے 2019 ء کے دوران پاکستان میں ہیپٹائٹس سی اور ہیپٹائٹس بی کے سبب ہونے والی اموات میں بالترتیب پانچ اور آٹھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان چار سالوں کے دوران محض پونے تین لاکھ کے قریب مریضوں کی اسکریننگ کی گئی جن میں سے صرف ایک لاکھ تریسٹھ ہزار نے علاج کے لیے مختلف ہسپتالوں سے رجوع کیا۔"

Deutschland Eberswalde | Säugling Spritze | Impfschutz
بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ضرور لگائی جانی چاہیےتصویر: Hans Wiedl/dpa/picture alliance

اس تحقیق کے مطابق ڈبلیو ایچ او کا کم از کم ہدف ہے کہ ہر ملک میں نئے پیدا ہونے والے 90 فیصد بچوں کو ہیپاٹائٹس بی کی ویکسین ضرور لگائی جائے۔ لیکن ”پاکستان میں 2020 ء کے دوران یہ شرح محض 77 فیصد رہی۔"

ٹراپیکل میڈیسن اینڈ ہیلتھ میں ''نیشنل رجسٹری اِن پاکستان: نیڈ فار ہیپاٹائٹس  کنٹرول‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی حالیہ تحقیق کے مطابق 2030 ء تک ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے پاکستان کو ”سالانہ ایک کروڑ اٹھاسی لاکھ ٹیسٹ کرنے ہوں گے اور گیارہ لاکھ افراد کا علاج کرنا ہو گا۔"

پاکستان میں ہیپاٹائٹس پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں؟

پاکستان ہیلتھ ریسرچ کونسل کی ''رسک فیکٹرز آف ہیپاٹائٹس سی اِن پاکستان‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق انجیکشن اور بلڈ ہیپاٹائٹس سی پھیلانے کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ ”ماضی میں جو شخص سالانہ چار سے پانچ انجیکشن لگواتا رہا اس کے ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہونے کے امکانات نو سے گیارہ فیصد زیادہ تھے۔" اس کے علاؤہ ”خون کا تبادلہ، سرجیکل آپریشن اور حجاموں سے شیو وغیرہ کے دوران کٹ لگنا عمومی وجوہات ہیں۔"

اسپین کی پاکستانی برادری اور ہیپاٹائٹس سی

سرجیکل گلوبل ہیلتھ میں گذشتہ برس ''پاکستان اسٹرگلنگ ٹو ٹیم ہیپاٹائٹس: این آن گوئنگ تھریٹ‘‘ کے نام سے شائع ہونے والی تحقیقی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہیپاٹائٹس پھیلانے میں درج ذیل عناصر بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ ”خون کی منتقلی (15 فیصد)، ہاسپٹل ہسٹری (14 فیصد)، دانتوں کا علاج (13 فیصد)، انجیکشن یوز (12 فیصد) اور سرجیکل ہسٹری (9 فیصد)۔"

اس رپورٹ کے مطابق ”خون دینے والے افراد میں سے تقریباً نصف کا ہیپاٹائٹس ٹیسٹ کیے بغیر خون نکال کر دوسرے افراد کو لگا دیا جاتا ہے۔"

آپ خود کو ہیپاٹائٹس سے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں؟

پاکستان میڈیکل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ سائنسز سے وابستہ ڈاکٹر اکرام اللہ ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہت معمولی چیزوں پر توجہ دے کر ہم  ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماریوں سے بچ سکتے ہیں۔

Unicef South Asia report
بنگلہ دیش نے بھی 2020 ء کے اپنے اہداف کو پورا کرتے ہوئے ہیپاٹائٹس بی پر قابو پانے میں کامیابی حاصل کیتصویر: Christine McNab

”سب سے پہلے تو یقینی بنائیں کہ آپ ہیپاٹائٹس ''اے اور بی‘‘  کی ویکسین لگوا چکے ہیں۔ یہ سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہے۔   ہیپاٹائٹس  اے اور ای آلودہ پانی اور خوراک سے پھیلتا ہے، صاف ستھری غذا ہر طرح کی بیماری سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔ پانچ سات سو روپیہ کچھ زیادہ نہیں ہے، شیونگ کٹ خریدیں، حجام کے اوزار پر اعتماد نہ کریں۔ بچوں کی ویکسینیشن والدین کی اولین ذمہ داریوں میں شامل ہونی چاہیے۔"

 سرگودھا کے نجی ہسپتال میں شعبہ امراض جگر کی سربراہ اور پی ایم اے کی رکن ڈاکٹر فاطمہ عزیز ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتی ہیں، ”ہم بعض اوقات چیزوں کو بہت سادہ انداز میں دیکھتے ہیں۔ اوسط درجے کے نجی ہسپتال میں دانت نکلوانے کی فیس تقریباً پانچ ہزار ہے جو ایک بہت بڑی آبادی کی پہنچ سے باہر ہے۔ وہ فٹ پاتھ پہ بیٹھے تین چار سو میں دانت نکالنے والے کے پاس جائے گا جو یقیناً محفوظ آلات استعمال نہیں کر رہا ہو گا۔ کیا تین چار سو میں ایسا ممکن ہے؟ مگر غریب بندہ اس کے بجائے نہ جائے تو کیا کرے۔"

وہ کہتی ہیں، ”بے روزگاری، غربت، آبادی میں اضافہ اور مختلف امراض کا پھیلاؤ یہ سب آپس میں جڑے ہیں۔ پاکستان کا شعبہ صحت محض 0.75 فیصد مقامی آلات استعمال کرتا ہے۔ باقی سب باہر سے آتے ہیں۔ ایسے بڑے مسائل ریاستی سطح پر حل کیے جاتے ہیں اور ہیپاٹائٹس جیسی مہلک بیماری کو قومی سطح پر سنجیدگی سے لیا جانا چاہیے۔"

ہیپاٹائٹس کے خاتمے کے لیے قومی سطح پر مہم کی ضرورت

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن نے ڈی ڈبلیو او کی حالیہ رپورٹ پر ردعمل دیتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ  ہیپاٹائٹس  کے حوالے سے ”بھرپور عوامی آگاہی مہم شروع کرے۔  ملک بھر میں ٹیسٹ کروانے کی آسان اور سستی سہولیات فراہم کرے۔ بالخصوص دیہی علاقوں میں صحت سہولیات کو بہتر بنائے اور تحقیق کے لیے فنڈ فراہم کرے۔"

ڈاکٹر فاطمہ عزیز کہتی ہیں، ”حکومت نے گذشتہ برس ہیپاٹائٹس سے متاثرہ کروڑوں افراد کی اسکریننگ اور لاکھوں کے علاج کا عزم ظاہر کیا تھا۔ شہباز شریف حکومت نے پینتیس ارب کے فنڈز مختص کیے۔ ہمیں بلا کر بریفننگ دی گئی کہ 2030 تک پاکستان ہیپاٹائٹس سے مکمل نجات حاصل کر لے گا۔ مگر عملی طور پر کچھ بھی نہیں ہو سکا۔"

ڈاکٹر اکرام مصر کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں، ”کئی برس تک دنیا میں ہیپاٹائٹس  کے سب سے زیادہ مریضوں کی تعداد مصر میں تھی جو ایک دہائی کے دوران اسے دس فیصد سے 0.38 فیصد تک لانے میں کامیاب رہا۔ اسے فنڈنگ عالمی اداروں نے کی مگر اس سے پہلے انہوں نے قومی سطح پر مہم کا آغاز خود کیا۔"

ان کے بقول، ”پنجاب ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرام اور ہیپاٹائٹس فری سندھ پروگرام جیسے صوبائی پروگرام چل رہے ہیں مگر وہ موثر نہیں۔ آپ نے کبھی ان کے حوالے سے ٹی وی یا سوشل میڈیا پر کچھ سنا؟ حد تو یہ ہے کہ  لوگ ابھی تک سمجھتے کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی ناقابلِ علاج مرض ہے۔"

ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں، ”پاکستان دنیا میں ہیپاٹائٹس سی اور بی کے سستے ترین علاج والے سر فہرست ممالک میں شامل ہے۔ مثلاً ہیپاٹائٹس سی کا بارہ ماہ پر مشتمل کورس تقریباً دس ہزار میں پڑتا ہے۔ مگر عوام کو آگاہی نہ ہو تو اس کا کیا فائدہ؟"