1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دریائے ڈارلنگ کی لاکھوں مچھلیاں مر گئیں

28 جنوری 2019

حالیہ کچھ عرصے کے دوران یہ تیسرا ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ آسٹریلیا کے مغرب میں بڑے پیمانے پر مچھلیاں مردہ حالت میں پائی گئی ہیں۔ مقامی ماہرین اسے خشک سالی کا نتیجہ جبکہ ناقدین اسے حکام کی غفلت قرار دیتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3CKrA
Tote Lachse Fisch Chile
تصویر: picture-alliance/AP Photo/L.Hidalgo

اتنی بڑی تعداد میں مچھلیوں کی ہلاکت کا یہ واقعہ نیو ساؤتھ ویلز کے مغربی شہر منیندی کے مضافات میں پیش آیا ہے۔ قبل ازیں جنوری کے آغاز میں اور کرسمس سے پہلے بھی اسی علاقے میں لاکھوں مچھلیاں مردہ حالت میں پانی کی سطح پر تیرتی دکھائی دی تھیں۔

مقامی ماہرین کی طرف سے اس کی وجہ پانی میں موجود الجی کے پودوں کا مرنا بتایا گیا ہے۔ شدید گرم موسم میں الجی کے پودوں کی نشو و نما نہیں ہو پاتی، جس کی وجہ سے مچھلیاں خوراک سے محروم ہو جاتی ہیں۔ مچھلیاں اپنی خوراک کا زیادہ تر حصہ الجی یعنی کائی سے حاصل کرتیں ہیں۔ الجی کے پودوں کے مرنے سے پانی میں آکسیجن کا تناسب بھی کم ہو جاتا ہے۔

نیو ساؤتھ ویلز کے ریاستی وزیر اعلیٰ گلیڈز بیریجلیان نے اس پیش رفت کا ذمہ دار خشک سالی اور پانی کے خراب ہوتے ہوئے معیار کو ٹھہرایا ہے۔ دوسری جانب علاقائی وزیر برائے آبی امور نیل بلیئر کے مطابق ان کا محکمہ جانتا تھا کہ موسمی حالات ’’خوفناک‘‘ ہیں اور انہوں نے اسی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ’واٹر ایری ایشن‘ کے دو نظام نصب کیے تھے۔ اس نظام کے تحت پانی میں آکسیجن کی مقدار کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

تاہم بلیئر کا صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بدقسمتی سے اس مسئلے کا حل کسی کے پاس بھی موجود نہیں ہے، ’’کوئی سائنس دان، کوئی مقامی شخص، کوئی بھی نہیں، جو اس کا حل تجویز کر سکے۔ اس کی روک تھام کے لیے صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تازہ اور صاف پانی، جو کہ اس سخت گرم موسم میں ناپید ہو چکا ہے۔‘‘

مقامی سیاحتی ایسوسی ایشن کے صدر روب گریگوری کا کہنا تھا کہ گزشتہ چار برسوں کے دوران حکومت نے کسانوں کو فصلوں کی آبپاشی کے لیے بہت بڑی مقدار میں پانی استعمال کرنے کی اجازت دی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ’’میرے خیال میں یہ مردہ حالت میں ملنے والی آخری مچھلیاں تھیں، اب یہاں کچھ بھی باقی نہیں بچا۔‘‘

مرے ڈارلنگ بیسن آسٹریلیا کا ایک اہم دریائی نظام ہے۔ اس کی ہوائیں چار ریاستوں سے ہو کر گزرتی ہیں جبکہ یہ نظام اس ملک کو ایک تہائی غذا بھی فراہم کرتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ٹیکس دہندگان کے 9.3 ارب ڈالر بھی اس کی بہتری کے لیے خرچ کیے جا چکے ہیں۔

ر ا / ا ا (اے پی)