1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دریا اینٹی بائیوٹکس فضلے سے متاثر، مطالعاتی رپورٹ

28 مئی 2019

عالمی سطح پر دریا اینٹی بائیوٹک فضلے سے متاثر ہوئے ہیں۔ ایک تازہ تحقیقی رپورٹ کے مطابق دریاؤں میں موجود یہ خطرناک فضلہ ماحولیاتی سلامتی کے لیے مختص حد سے تین سو گنا زیادہ ہے۔

https://p.dw.com/p/3JGjs
Indonesien Fluss durch Chemikalien einer Textilfabrik verschmutzt
تصویر: Getty Images/AFP/T. Matahari

تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق 72 ممالک کے دریاؤں سے حاصل کیے گئے 711 نمونوں میں سے دو تہائی ایک یا متعدد اینٹی بائیوٹک فضلے سے متاثر ملے ہیں۔ یہ تحقیقی رپورٹ ہیلسنکی میں ماہرین ماحولیاتی زہریات کی ایک کانفرنس میں پیش کی گئی۔

ایک سگریٹ میں کیا کچھ ہوتا ہے، سات ہزار مہلک کیمیائی مادے

پاکستان، پینے کا پانی زہریلا ہونے لگا

بتایا گیا ہے کہ مختلف مقامات پر دریاؤں سے حاصل کردہ نمونوں میں ادویات کے ارتکاز اے یم آر صنتعی الائنس کی جانب سے طے کردہ حفاظتی سطح سے بہت اوپر دیکھی گئی ہے۔ اے ایم آر صنعتی الائنس 100 سے زائد بائیو ٹیک اور ادویات ساز اداروں کی مشترکہ تنظیم ہے۔

بتایا گیا ہے کہ 51 مختلف مقامات پر یورین اور آنتوں کے انفیکشن کے علاج کے لیے استعمال ہونے والے کیمیائی مادے کیپروفلوکساکین کی سطح بے حد بلند دیکھی گئی۔ بنگلہ دیش میں ایک مقام پر دریا میں میٹروناڈازول نامی اینٹی بائیوٹک کی سطح محفوظ حد سے تین سو گنا زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

نیو یارک کے ادارہ برائے ماحولیاتی استحکام کے ایلیسٹر بوکسال کے مطابق، ’’یہ نتائج چشم کشا اور پریشان کن ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ زمینی دریاؤں کا نظام کتنے بڑے پیمانے پر آلودگی کا شکار ہے اور اس کی وجہ دنیا بھر میں اینٹی بائیوٹک مرکبات سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اینٹی بائیوٹک مرکبات کی اتنے وسیع پیمانے پر موجودگی نہ صرف جنگلی حیات کو خطرے سے دوچار کر رہی ہے بلکہ جراثیموں میں مزاحمتی مدافعت کا سبب بھی ہے۔

عالمی ادارہ صحت خبردار کر چکا ہے کہ اینٹی بائیوٹکس کا جراثیموں کے خلاف اثر کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ عالمی ادارے نے ادویات ساز صنعت اور عالمی برادری سے اپیل کی تھی کہ ادویات کی ایک نئی کھیپ تیار کی جائے، جو جراثیموں کے خلاف موثر ہو۔ یہ بات اہم ہے کہ جراثیموں کے خلاف استعمال ہونے والی ادویات کی وجہ سے ان جراثیموں میں رفتہ رفتہ ان ادویات کے خلاف مزاحمت کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ ادویات پھر ان جراثیموں کے خلاف موثر نہیں رہتیں۔

اینٹی بائیوٹکس کی ایجاد سن 1920 میں نمونیہ، ٹی بی اور اس طرز کے دیگر جان لیوا جراثیموں کے خلاف ہوئی تھی، اور ان کی وجہ سے اب تک کروڑوں انسانوں کی زندگیں بچائی جا چکی ہیں۔

ع ت، ع س (اے ایف پی، روئٹرز)