داووس کا عالمی اقتصادی فورم اور يورو زون
27 جنوری 2011ماريس ليوی نے داووس ميں ہونے والے عالمی اقتصادی فورم ميں يہ بھی کہا کہ يورپی نظام اچھی طرح سے کام کررہا ہے اور اس نے اس قسم کے بحران کے خلاف مزاحمت کی ہے۔
ماريس ليوی نے کہا: ’’اگر آپ غور کريں کہ يورو نہ ہونے، يورپی يونين نہ ہونے اور حال ہی ميں جو تعاون ہوا ہے اس کے نہ ہو سکنے کی صورت ميں ہميں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑتا تو آپ کو ميری بات کے درست ہونے پر يقين آ جائے گا۔ اگر يہ سب کچھ نہ کيا جاتا تہ يونان ديواليہ ہوجاتا اور وہ اپنے قرضے ادا نہيں کرسکتا تھا۔ يہی حال آئر لينڈ کا ہوتا۔‘‘
بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے يونان کو پچھلے سال يورپی يونين سے مالی مدد وصول کرنے پر مجبور ہونا پڑا تھا۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو وہ نادہندہ ہو جاتا اور مشترکہ يورپی کرنسی يورو ناکام ہوجاتی۔
آئرلي نڈ کو بھی پچھلے سال اسی قسم کی مدد کی درخواست پر مجبور ہونا پڑا تھا کيونکہ مالی منڈيوں سے اسے کسی قسم کا تعاون نہيں مل پا رہا تھا، يعنی يہ کہ اُسے قابل برداشت شرح سود پر قرضے نہيں مل رہے تھے۔
ليکن جہاں 17رکنی يورو کرنسی زون کے کئی ممالک کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے وہاں اقتصادی لحاظ سے يورپ کے صف اول کے ملک جرمنی کے سپر اسٹورز گروپ ميٹرو کے جنرل مينيجر ايکہارٹ کورڈيس نے کہا کہ اُن کے ملک کو يورو سے خاصا فائدہ پہنچا ہے۔
امريکی انويسٹمينٹ بينک جے پی مورگن کے چيف ايگزيکٹيو جيمز ڈيمون نے کہا کہ اُن کے خيال ميں يورپی يونين عظيم ترين انسانی کوشش ہے۔ تاہم انہوں نے تسليم کيا کہ يورو زون کے ملکوں کی معيشتوں کے درميان پائے جانے والے فرق سے قرضوں کے بحران سے نکلنے ميں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ايک ملک ميں تو 55 سال کی عمر ہی ميں 100 فيصد پننشن دی جارہی ہے، وہاں رياستی فلاحی امداد فراخدلی سے دی جاتی ہے اور لوگ ہفتے ميں صرف 33 گھنٹے کام کررہے ہيں جبکہ ايک دوسرے ملک ميں ريٹائرمينٹ کی عمر 65 سال ہے اور وہاں لوگ ہفتے ميں 40 گھنٹے کام کرتے ہيں۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: امتیاز احمد