1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خود مختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں، وزیر اعظم گیلانی

14 دسمبر 2011

پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دنیا کے 15 سے زائد ممالک میں پاکستانی سفیروں کی اسلام آباد منعقدہ دو روزہ کانفرنس کے اختتام پر کہا ہے کہ ملکی خود مختاری اور سلامتی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

https://p.dw.com/p/13SSi
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی
پاکستانی وزیر اعظم یوسف رضا گیلانیتصویر: AP

پاکستان کی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی کے لیے منعقدہ اس کانفرنس میں گیلانی نے یہ بھی کہا کہ پاکستان نیٹو کے حملے میں اپنے فوجیوں کی ہلاکت پر اٹھنے والے سوالات کے جواب چاہتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ کانفرنس سے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے اختتامی خطاب اور مشترکہ اعلامیے کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان بدلتے ہوئے حالات میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کے ساتھ تعلقات کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہو گیا ہے۔
سفیروں کی اس کانفرنس کی سفارشات کو پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کی کمیٹی میں بحث کے بعد حتمی منظوری کے لیے پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا۔ پارلیمان کی قومی سلامتی کمیٹی کے رکن اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ سفراء کانفرنس سے کم از کم یہ بات تو سامنے آئی ہے کہ سابق آمر جنرل مشرف کی حکومت کن شرائط پر امریکہ سے تعاون کر رہی تھی۔ تاہم افراسیاب کا کہنا ہے کہ نئی پالیسی کو بین الاقوامی تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے پاکستان کو مزید کچھ چیزوں پر بھی نظرثانی کرنا ہو گی۔

انہوں نے کہا:’’ہماری خود مختاری کی جو دلیل ہے، اس میں ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ یہ دنیا کے لیے اس وقت تک ماننے کے لائق ہے جب ہم اس کو ایک جامع انداز میں لیں۔ یعنی ہم ڈرون حملے بھی نہ کرنے دیں لیکن جو دہشت گرد بغیر پاسپورٹ آئے ہوئے ہیں اور ہماری سرزمین کو استعمال کر رہے ہیں ان کو بھی ہم نہ چھوڑیں کیونکہ وہ بھی ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے۔ اسی صورت میں دنیا سمجھے گی کہ ہم خود مختاری کے حوالے سے سنجیدہ ہیں لیکن اگر ہم کہیں کہ ایک خلاف ورزی ہے اور دوسری نہیں تو ہماری اس دلیل پر سوالیہ نشان رہیں گے۔‘‘

’’سفراء کانفرنس سے کم از کم یہ بات تو سامنے آئی ہے کہ سابق آمر جنرل مشرف کی حکومت کن شرائط پر امریکہ سے تعاون کر رہی تھی‘‘: افراسیاب خٹک
’’سفراء کانفرنس سے کم از کم یہ بات تو سامنے آئی ہے کہ سابق آمر جنرل مشرف کی حکومت کن شرائط پر امریکہ سے تعاون کر رہی تھی‘‘: افراسیاب خٹکتصویر: AP

بین الاقوامی امور کے ماہر ظفر جسپال کا کہنا ہے کہ سفیروں کی کانفرنس میں مرتب کی گئی سفارشات کی روشنی میں پاکستانی پارلیمان کو ایک مضبوط موقف اپنانا ہو گا، تبھی امریکہ اور نیٹو سے اپنی بات منوائی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا:’’امریکہ اور نیٹو افواج نے 10 سالوں میں ہمارے ساتھ ڈیل کرتے ہوئے یہ سیکھا ہے کہ ہم لوگ تھوڑا بہت شور مچاتے ہیں، دباؤ ڈالتے ہیں، وہ تھوڑا بہت بات چیت کر کے کچھ دو اورکچھ لو کی پالیسی اختیار کر کے آگے چلے جاتے ہیں۔ مگر اس وقت ہمارے حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ صرف کچھ لو اور دو سے بات نہیں بنے گی۔‘‘

پاکستان کے سابق سفیر آصف ایزدی کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ پاکستان کی نظر ثانی شدہ خارجہ پالیسی کا بھی احترام نہیں کرتا اور پاکستان کے مقابلے میں بدستور ہندوستان سے دوستانہ تعلقات کو فوقیت دیتا ہے تو پھر پاکستانی قیادت کو خطے کے دیگر ممالک سے قریبی تعلقات استوار کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا:’’افغانستان سے، ایران سے ہمارے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں۔ ہمیں افغانستان کی خودمختاری کا مکمل احترام کرنا چاہیے اور ان کے اندرونی مسائل میں دخل نہیں دینا چاہیے۔ ہمارا یہ خیال کہ شمالی اتحاد ہمارا دشمن ہے، یہ بھی غلط ہے۔ ہمیں افغانستان کے ہر سیاسی عنصر سے بنا کر رکھنی چاہیے ۔ ہماری ان سے کوئی مستقل دشمنی نہیں اور اگر ہم نے ان کے معاملات میں پہلے مداخلت کی ہے تو اب نہیں کرنی چاہیے۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم، اسلام آباد

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں