1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہجرمنی

خود کشی کے آزادانہ ذاتی فیصلے کا احترام کیا جائے، جرمن کونسل

25 ستمبر 2022

اخلاقی امور کی جرمن کونسل اس امر پر یقین رکھتی ہے کہ خود کشی کے آزادانہ ذاتی فیصلے کا احترام کیا جائے اور اس کی اجازت دی جائے۔ تاہم جرمنی کی آئینی عدالت فی الحال اس کے حق میں نہیں۔

https://p.dw.com/p/4HHnz
Symbolbild Suizid Verzweiflung Rote Linien
تصویر: Fotolia/Kwest

اخلاقی امور کی جرمن کونسل کی سربراہ علینا بوکس نے برلن میں اس موضوع پر منعقدہ ایک تقریب میں اپنا موقف پیش کرتے ہوئے کہا کی جب کوئی شخص آزادانہ طور پر خود اپنی جان لینے کا فیصلہ کرتا ہے، تو اسے اس کا حق خود ارادی سمجھتے ہوئے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ریاست اور معاشرے کو اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ لوگوں کو خود کشی کرنے سے روکے یا ان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔

ناقابل تنسیخ عمل

اس سلسلے میں خود کشی کی روک تھام کے لیے کیے جانے والے اقدامات اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ خود کشی، ذمہ داری، روک تھام اور آزادانہ فیصلہ کے عنوان سے اس دستاویز کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی جان لے لیتا ہے تو یہ ایک ناقابل تنسیخ عمل ہے اور اس وجہ سے خود کشی کے فیصلے میں بہت سوچ بچار اور ذاتی قوت ارادی کا شامل ہونا ضروری ہے۔ فیصلہ کرنے والے فرد میں تمام ممکنہ پہلوؤں کا مناسب انداز میں اور حقیقت پسندانہ طور پر حالات کا جائزہ لینے کی صلاحیت ہونا چاہیے۔

Trauer um Robert Enke
جرمن فٹ بالر رابرٹ اینکے نے 2009ء میں خود کشی کر لی تھیتصویر: AP

بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی

جرمن کونسل برائے اخلاقیات نے اپنے اس مسودے میں واضح کیا ہے کہ خود کشی کے آزادانہ فیصلے زیادہ تر بنیادی سہولیات تک رسائی میں پیش آنے والی شدید مشکلات کی وجہ سے کیے جاتے ہیں۔ اس تناظر میں اس کونسل کے ایک ورکنگ گروپ کے ترجمان ہیلموٹ فرسٹر نے کہا کہ یہ ریاست اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ شہریوں کو ایسے حالات کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ وہ موت کو ایک آسان حل سمجھتے ہوئے اسے زندگی پر ترجیح دیں۔

کونسل میں اختلافات

جرمن کونسل برائے اخلاقیات میں تاہم اس حوالے سے کچھ نکات پر اختلاف بھی پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر یہ کہ کیا استثنائی حالات میں نابالغوں کو خود کشی میں مدد فراہم کی جانا  چاہیے؟ اور کیا اس سلسلے میں کوئی منظم طریقہ کار یا ضوابط بنانے کی ضررورت ہے؟

ماہرین میں اس حوالے سے بھی اختلاف رائے پایا جاتا ہے کہ کیا فیصلہ کرنے والے کو یہ بتایا جانا چاہیے کہ آئندہ دنوں میں اسے کوئی ایسی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے، جس کے بعد عین ممکن ہے کہ وہ آزادانہ طور پر خود کشی کرنے کا فیصلہ کرنے کے قابل نہ رہے۔ ماہرین اس نکتے پر بھی بحث کر رہے ہیں کہ جو لوگ مرنا چاہتے ہیں ان پر کس حد تک یہ ذمہ داری عائد کی جا سکتی ہے کہ انہیں اس سلسلے میں کوئی وضاحت بھی کی جائے یا نہیں۔

اخلاقی کونسل کی سربراہ علینا بوکس کی جانب سے پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس جرمنی میں نو ہزار افراد نے اپنی جان لی جبکہ خود کشی کی کوشش کرنے والوں اور اس عمل پر آمادہ افراد کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

بوکس نے مزید بتایا کہ وفاقی جرمن آئینی عدالت نے 2020ء میں تجارتی بنیادوں پر خود کشی میں معاونت سے متعلق ایک قانون مسترد  کر دیا تھا۔ عدالت نے رضا کارانہ طور پر خود کشی کرنے کے حق کو بھی تسلیم نہیں کیا۔ اس دوران جرمن پارلیمان اس سلسلے میں ایک متبادل قانون سے متعلق اپنے صلاح و مشورے جاری رکھے ہوئے ہے۔

’’اگر میرے بچے نہیں ہوتے، تو میں نے خود کشی کرلی ہوتی۔‘‘

ع ا / م م ( اے ایف پی)