خواتین کی وہ خدمات، جن کی قدر نہ ہوئی
23 جنوری 2020برطانوی تنظیم آکسفیم کے مطابق دنیا میں ہر روز اکثر خواتین اور لڑکیاں اپنا بیشتر وقت گھریلو کام کاج اور بچوں اور بزرگوں کی نگہداشت پر صرف کرتی ہیں۔ لیکن انہیں اس کام کا کوئی مالی صلہ نہیں ملتا۔ آکسفیم نے اپنی ایک سالانہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر دنیا بھر کی خواتین کو اس کام کی کم سے کم اُجرت بھی دی جائے تو یہ رقم سالانہ 11 کھرب ڈالر بنتی ہے۔
تنظیم کا کہنا ہے کہ، ''ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ تمام گھریلو کام کاج کرنے والی خواتین کو 11 ارب ڈالر ادا کیے جائیں۔ لیکن انہیں اس کام کے عوض کچھ مالی تحفظ ملنا چاہیے۔‘‘ آکسفیم کی یہ رپورٹ اسی ہفتے سوئٹزرلینڈ میں جاری عالمی اقتصادی فورم میں پیش کی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دنیا کا معاشی نظام صنفی امتیاز پر مبنی ہے۔ یہ نظام خواتین کو مالی لحاظ سے مردوں سے پیچھے رکھتا ہے۔ بچیوں اور عورتوں کو ایسے کاموں پر لگا دیا جاتا ہے، جو ضروری بھی ہوتے ہیں اور محنت طلب بھی لیکن انہیں زندگی بھر اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔
مثلاﹰ مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ایک آٹھ سالہ بچی اپنے بھائی کی نسبت گھر کے کام کاج میں 30 فیصد سے زیادہ وقت لگانے پر مجبور ہوتی ہے۔ جب وہ دس سال کی عمر کو پہنچتی ہے تو اس کا بھائی کی نسبت 50 فیصد زیادہ وقت اس کام کاج میں لگتا ہے۔ اس کے بعد پاکستان سمیت کئی ملکوں میں اکثر لڑکیوں کو زیادہ پڑھایا لکھایا نہیں جاتا اور ان کی شادی کر دی جاتی ہے، جس کے بعد وہ بال بچوں کی پرورش میں لگ جاتی ہیں۔
وہ ساری زندگی دن رات محنت کرتی رہتی ہیں لیکن نہ معاشرہ ان کے کام کو سراہتا ہے اور نہ ہی انہیں اس کا کوئی معاوضہ دیا جاتا ہے۔ یوں دنیا کی ایک بہت بڑی آبادی کو اُس کی صنف کی وجہ سے دبا کے رکھا جاتا ہے۔ پھر چاہے مائیں ہوں، بیویاں یا بیٹیاں، دنیا میں لاکھوں عورتیں اپنے بنیادی مالی اخراجات کے لیے بھی مرد کی محتاج رہتی ہیں۔
آکسفیم کا کہنا ہے کہ ایک بہتر نظام میں ہونا تو یہ چاہیے کہ مرد ہو یا عورت وہ خود فیصلہ کریں کہ وہ گھر کی ذمہ داریاں اٹھانا چاہتے ہیں یا باہر کی۔
ایسے خواتین و حضرات جو بچوں کی خاطر یا اپنے بزرگوں کی نگہداشت کی خاطر کچھ عرصے کے لیے گھر پر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، انہیں اس کی سزا نہیں ملنی چاہیے بلکہ اس کام کے بدلے انہیں کچھ مالی تحفظ ملنا چاہیے۔