1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین، ایمان اور سفارت کاری، مہمان کا تبصرہ

10 نومبر 2020

مذاہب انسانوں کے مستقبل سے جڑے سوال کے جواب کے لیے موزوں ہیں۔ ڈی ڈبلیوکے لیے اپنے تبصرے میں انیٹے شاوان کہتی ہیں مذاہب کو فراموش کرنا یورپ کو کمزور بنائے گا۔

https://p.dw.com/p/3l5cs
Interreligiöses Treffen im Allgäu
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Gißibl

بین الاقوامی نیٹ ورکس اور تنظیمیں اس سلسلے میں اہم ہوتی جا رہی ہیں۔  بڑے مسائل کو بین الاقوامی سطح پر اشتراک عمل کی بجائے قومی سیاق پر حل کیا جا سکتا ہے کا بیانیہ حقیقت میں ایک سراب ہے اور یہ تنظیمیں اس سے متعلق عوامی شعور پیدا کر رہی ہیں۔ عالمی وبا نے دنیا بھر کو باورہ کروایا ہے کہ اگر کسی مسئلے سے کوئی بھی دوچار ہو سکتا ہے، تو ایسے میں ہر ایک شخص کا انحصار دوسرے پر ہے۔ ماحولیاتی تبدیلیوں اور ترقی کے معاملے میں بھی حالات مختلف نہیں۔ امن اور حصول ِ امن بھی قومی اور ثقافتی سرحدوں سے ماورا ہو کر  ہر شخص کی خواہش کا تقاضا کرتے ہیں۔ پچھلے پچاس برسوں میں عالمی نیٹ ورک 'مذاہب برائے امن‘مختلف مذاہب کے درمیان باہمی اعتماد کے قیام کے لیے کام کر رہا ہے۔

مذاہب کے ذریعے امن کا حصول ممکن ہے، جرمن صدر

تبصرہ: کورونا وائرس میں مذاہب جیسے خاموش

اس عالمی نیٹ ورک کا مقصد یہ ہے کہ امن کے قیام کے لیے مشترکہ اقدامات اور اخلاقی معیارات قائم ہوں تاکہ عالمی سطح پر انہیں عام مشترکہ ملکیت سمجھا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ مذاہب کے درمیان امن قائم کیے بغیر امن کا تصور ناممکن ہے۔ ایسے ہی اقدامات عالمی پارلیمان برائے مذاہب (World Parliament of Religions) بھی سن 1993 میں شکاگو میں اپنے قیام کے بعد سے کر رہی ہے۔ تب اس تنظیم نے عالمی اخلاقیات سے جڑا ایک اعلامیہ بھی منظور کیا تھا۔

اس اعلامیے کا مرکزی جملہ تھا، ''مذاہب کے درمیان امن کے بغیر اقوام کے درمیان امن ناممکن ہے۔ مذاہب کے درمیان امن، مذاہب کے درمیان مکالمت کے بغیر ناممکن ہے۔ مذاہب کے درمیان مکالمت مشترکہ اخلاقی اقدار اور معیارات کے بغیر ناممکن ہے۔‘‘

Annette Schavan
مہمان تبصرہ نگار انیٹے شاوانتصویر: picture-alliance/Ulrich Baumgarten

جرمن علاقے ٹیوبنگن سے تعلق رکھنے والے تھیولوجین ہانز کیونگ نے عالمی اخلاقیات کی ترتیب میں بنیادی کردار ادا کیا۔ انہوں نے اس سلسلے میں ایک فاؤنڈیشن بھی قائم کی تاکہ یہ کام جاری رہے۔ ان کے کام کو چرچ کی جانب سے جزوی طور پر سراہا گیا اور کبھی ان پر عمل نہیں کیا گیا۔

گزشتہ برس جنوبی جرمن شہر لنڈاؤ میں ریلیجنز فار پیس یا مذاہب برائے امن کا دسواں عالمی اجتماع منعقد ہوا اور اب 'بین الاقوامی اسمبلی برائے خواتین، اعتقاد اور سفارت کاری‘ منعقد ہو رہی ہے۔ عالمی وبا کی وجہ سے یہ اسمبلی ورچوئل سطح پر منتقل ہو گی، تاہم ان دونوں تقاریب میں عوامی دلچسپی میں اضافہ بتاتا ہے کہ اس موضوع پر یورپ بھر میں اہم حلقے اس کی اہمیت سمجھ رہے ہیں۔

حالیہ کچھ دہائیوں میں یورپ بھر میں مذاہب کے حوالے سے بے پرواہی کے رجحان میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ جملہ یورپ بھر میں سنا جاتا تھا کہ مذاہب کی عام افراد کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں اور اخلاقیات کے لیے مذاہب غیرمفید منبع ہیں۔

اب تاہم ایک مرتبہ پھر عالمی سیاسیات میں مذاہب کو دیکھا جا سکتا ہے اور یورپ میں بھی ایک مرتبہ پھر یہ بحث پیدا ہوئی ہے کہ مذاہب یورپی مستقبل میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں۔کیوں کہ مذاہب کو نظرانداز کیا گیا تو یہ یورپ کم زور ہو گا۔

مہمان تبصرہ نگار انیٹے شاوان پچھلے پچیس برسوں سے سیاسیات اور سفارت کاری سے منسلک ہیں۔ وہ دو ہزار پانچ سے دو ہزار تیرہ تک جرمنی کی وفاقی وزیر برائے تعلیم بھی رہیں۔ دو ہزار چودہ سے دو ہزار اٹھارہ تک انہوں نے ویٹیکن میں بہ طور جرمن سفیر خدمات انجام دیں۔ اب وہ جرمن فاؤنڈیشن 'رنگ فار پیس‘ کے بورڈ آف ٹرسٹیز میں شامل ہیں۔