1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خصوصی مراکز کے قیام کی بحث ختم ہو سکتی ہے، جرمن پولیس

6 مئی 2018

جرمنی میں پناہ گزینوں کے لیے خصوصی حراستی مراکز کے قیام کی بحث میں جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین نے مطالبہ کیا ہے کہ پولیس کو بغیر سفری دستاویزات کے ملک میں داخل ہونے والوں کو سرحد سے ہی فوراﹰ واپس بھیج دینے کی اجازت دی جائے۔

https://p.dw.com/p/2xFid
تصویر: picture alliance/dpa/S. Kahnert

وفاقی جرمن پولیس کی ٹریڈ یونین ( DPoLG) کے سربراہ ایرنسٹ والٹر نے جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ حراستی مراکز اور دیگر سینٹرز کو قائم کرنے کی بحث اس طرح ختم ہو  سکتی ہے، کہ وفاقی پولیس کو قانونی اجازت نامے کے بغیر جرمنی میں داخل ہونے والے ہر غیر ملکی کو اسی محفوظ پڑوسی ملک میں واپس بھیج دینے کا اختیار دے دیا جائے، جس سے وہ جرمنی میں داخل ہونا چاہتا ہو۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اس کے ساتھ ساتھ جرمنی کی تمام وفاقی ریاستوں میں قائم  مراکز میں کافی جگہ بھی مہیا کی جاناچاہیے، تا کہ ان پناہ گزینوں کو وہاں پر رکھا جا سکے، جنہیں ملک بدر کیا جانا ہو۔

Türkei EU Flüchtlingsdeal Symbolbild
تصویر: picture alliance/dpa/MOKU/Uygar Onder Simsek

جرمنی کی وفاقی مخلوط حکومت کو امید ہے کہ خصوصی حراستی مراکز کے قیام سے سیاسی پناہ کی تقریباً پندرہ سو درخواستوں اور ملک بدری کے فیصلوں پر تیزی سے عمل درآمد ممکن ہو سکے گا۔ اس طرح اگر کسی کی درخواست رد کر دی گئی تو اسے اسی مرکز سے فوری طور پر واپس بھیج دیا جائے گا۔

جرمن وزیر داخلہ کا مہاجرین کی ملک بدریاں تیز کرنے کا منصوبہ

جرمنی: پناہ گزینوں سے متعلق نئے اور سخت ضوابط

مہاجر بچوں اور خواتین کے لیے بیس خصوصی مراکز

جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر چاہتے ہیں کہ اس سلسلے میں اولین مراکز اگست اور ستمبر کے مہینے میں ہی اپنا کام شروع کر دیں۔ زیہوفر کہہ چکے ہیں کہ اسی مہینے یا پھر جون کے شروع میں پناہ گزینوں کی ملک بدری کے عمل کو تیز تر بنانے کے ایک جامع منصوبے کا اعلان کر دیا جائے گا۔

برلن حکومت کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تمام غیر ملکیوں کو ان کی درخواستوں پر فیصلوں تک خصوصی حراستی مراکز میں رکھا جائے گا۔ ان حراستی مراکز میں تارکین وطن کے قیام کی زیادہ سے زیادہ مدت اٹھارہ ماہ ہو گی۔