1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خاموشی یا ملک بدری؟ غیر قانونی تارکین وطن کی مشکل

شمشیر حیدر Reuters
23 اپریل 2017

یورپ میں غیر قانونی طور پر مقیم تارکین وطن، خاص طور پر خواتین کو گھریلو تشدد سمیت کئی دیگر طرح کی زیادتیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے تارکین وطن ملک بدری کے خوف سے پولیس کو ان زیادتیوں کی اطلاع نہیں دیتے۔

https://p.dw.com/p/2bl2J
Deutschland Rückführung von Flüchtlingen
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Willnow

لندن میں غیر قانونی طور پر رہنے والی ماریا بھی اسی تذبذب میں رہیں کہ اس کے لیے زیادہ تکلیف دہ صورت حال کیا ہو سکتی ہے، بوائے فرینڈ کا گھریلو تشدد یا پھر پولیس کے سوالات؟

’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘

لیکن اس پر تشدد کرنے والے بوائے فرینڈ کو اس سوال کا جواب معلوم تھا۔ اسی لیے مار پیٹ کے باعث خون میں لت پت ماریا کو کار میں بٹھا کر لندن کے پولیس اسٹیشنوں کے باہر گاڑی کھڑی کر کے اس سے کہنے لگا کہ ہمت ہے تو جاؤ اور پولیس کو رپورٹ کرو۔ ماریا نے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا۔

تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ماریا کا کہنا تھا، ’’جوں ہی پولیس کو میری قانونی حیثیت کے بارے میں پتہ چلے گا تو پھر میں ایک مظلوم نہیں رہوں گی، بلکہ صرف ایک غیر قانونی تارک وطن ہی سمجھی جاؤں گی۔‘‘

برطانیہ میں قانونی اجازت کے بغیر رہائش پذیر ماریا اور اس جیسی دیگر کئی عورتیں ملک بدری کے خوف سے پولیس سے رجوع نہیں کرتیں اور اپنے ساتھ روا رکھی جانے والی زیادتیوں کو چپ چاپ برداشت کرتی رہتی ہیں۔

برطانیہ میں انسانی حقوق کی ایک کارکن کیرولینا گوٹارڈو کہتی ہیں، ’’ان لوگوں کے مرد ساتھی انہیں کہتے ہیں کہ اگر انہوں نے زیادتیوں کی شکایت کی تو انہیں ڈی پورٹ کر دیا جائے گا اور ان سے ان کے بچے بھی چھین لیے جائیں گے۔ غیر قانونی طور پر یہاں مقیم عورتیں ان کی بات پر یقین بھی کر لیتی ہیں کیوں کہ عموماﹰ وہ نہ تو انگریزی زبان سے واقف ہوتی ہیں اور نہ ہی انہیں اپنے قانونی حقوق کے بارے میں معلومات دستیاب ہوتی ہیں۔‘‘

محققین کا کہنا ہے کہ عام طور پر غیر قانونی طور پر یورپ میں آباد خواتین پولیس میں رپورٹ درج کرانے سے قبل اوسطاﹰ پینتیس مرتبہ تشدد کا شکار ہو چکی ہوتی ہیں۔

ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں بیس ہزار سے زائد غیر قانونی تارکین وطن رہ رہے ہیں۔ ہالینڈ میں بھی زیادتیوں کے شکار ایسے تارکین وطن پولیس میں رپورٹ کرنے سے اجتناب کرتے تھے۔ لیکن ایمسٹرڈیم کی پولیس نے سن 2013  میں ایک خصوصی پروگرام شروع کیا جس کے تحت دستاویزات کے بغیر وہاں مقیم تارکین وطن اپنی قانونی حیثیت ظاہر کیے بغیر بھی پولیس میں رپورٹ درج کرا سکتے ہیں۔

ایمسٹرڈیم پولیس کا یہ منصوبہ کافی کامیاب رہا جس کے بعد اسے ملک بھر کے پولیس اسٹیشنوں میں متعارف کرا دیا گیا۔ لیکن برطانیہ سمیت کئی دیگر یورپی ممالک میں ابھی بھی ایسا کوئی قانون نہ ہونے کے باعث تشدد اور زیادتیوں کے شکار غیر قانونی تارکین وطن خاموش رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔

یونان میں چند پیسوں کی خاطر جسم بیچتے پاکستانی مہاجر بچے

امیدوں کے سفر کی منزل، عمر بھر کے پچھتاوے