حکومت میں واپسی ناممکن، مولانا فضل الرحمان
13 جنوری 2011کراچی میں ڈوئچے ویلے کو دیے گئے خصوصی انٹرویو میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ انہوں نے حکومت سے علیحدگی کا فیصلہ آئینی اور دستوری طریقے سے احتجاج کے بعد کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کے مطالبات پورے نہیں کیے تو پھر حکومت سے شراکت اقتدار سے معذرت کرلی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اب پوری آزادی کےساتھ پارلیمانی کردار ادا کریں گے۔ ان کی جماعت کا انتہا پسندانہ رویہ نہیں ہے۔
جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا کہ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین انقلاب کی بات کررہے ہیں تو کیا وہ بھی کسی قسم کا انقلاب دیکھ رہے ہیں تو مولانا فضل الرحمان کا جواب تھا کہ وہ پرامن اور سیاسی عمل کے ذریعے انقلاب کے حامی ہیں۔ تاہم اگر حکومت نے ان کی تجویز پر عمل نہ کیا تو پھر خونی انقلاب کر کوئی نہیں روک سکتا۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وہ انسانی حقوق کے اداروں اور تنظیموں کے عہدیداروں سے پوچھتے ہیں کہ یہ ادارے قبائلی علاقوں میں فوج کے طرف سے کی جانے والی انسانی حقوق کے خلاف ورزیوں پر توجہ کیوں نہیں دیتے اور ڈرون حملوں پر اقوام عالم کیوں خاموش ہے۔
جب مولانا فضل الرحمان سے پوچھا گیا کہ حکومت مفاہمت کی سیاست پر عمل پیرا نظر آتی ہے، ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ن دونوں سے مذاکرات ہوچکے ہیں کیا ان کی جماعت سے بھی حکومت نے کوئی رابطہ کیا ہے تو مولانا فضل الرحمان کا جواب تھا کہ رابطے ضرور ہوئے ہیں۔ مگر کوئی زی شعور اور مستحکم جماعت اپنے فیصلوں پر اتنی جلدی نظر ثانی نہیں کرتی۔ فی الحال حکومت سے مفاہمت کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔
ممکنہ طور پر نئے مذہبی سیاسی اتحاد کے قیام کے حوالے سے مولانا فضل الرحمان نے کہا کے نیا اتحاد بننے کا امکان ضرور ہے مگر بعض مذہبی جماعتوں کی طرف سے تحفظات کے باعث اتحاد کا قیام فی الحال ممکن نہیں ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جمیعت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان مفاہمت کے بجائے مفادات کی سیاست کے حامی ہیں۔ ایم ایم کا اتحاد بھی انھیں کی وجہ سے ٹوٹا تھا اور ان کی جماعت کے بعض وزرا کی کرپشن کے قصےبھی زبان زدِ عام ہیں۔
رپورٹ: رفعت سعید، کراچی
ادارت: افسراعوان