1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حمزہ شہباز وزیراعلیٰ برقرار، مگر بے یقینی قائم

22 جولائی 2022

پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما حمزہ شہباز پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے دوبارہ وزیراعلی منتخب ہو گئے ہیں جبکہ پاکستان تحریک انصاف نے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے اسے چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4EWnX
Pakistan Lahore | Politische instabilität in Punjab
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

پنجاب اسمبلی کے اسپیکر دوست محمد مزاری نے رات گئے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے نتائج سناتے ہوئے ایوان کو بتایا کہ پاکستان مسلم لیگ نون اور اس کے اتحادیوں کے امیدوار حمزہ شہباز شریف نے ایک سو انناسی ووٹ حاصل کئے جبکہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ قاف کے مشترکہ امیدوار چوہدری پرویز الہی کو ایک سو چھیاسی ووٹ ملے ہیں۔

 ڈپٹی اسیکر نے اس موقعے پر ایوان میں پاکستان مسلم لیگ قاف کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین کا ایک خط بھی پڑھ کر سنایا، جس میں چوہدری شجاعت نے پارٹی اراکین کو حمزہ شہباز کی حمایت میں ووٹ دینے کا کہا تھا۔  اس خط کی روشنی میں مسلم لیگ قاف کے چوہدری پرویز الہی کو ملنے والے قاف لیگ کے دس ووٹ مسترد کر دیے گئے۔ اس طرح چوہدری پرویز الہی کے ووٹ ایک سو چھیتر رہ گئے اور حمزہ شہباز وزیراعلی پنجاب قرار پائے۔

اس موقعے پر پاکستان تحریک انصاف کے رہنما راجہ بشارت نے ڈپٹی اسپیکر کی توجہ آئین کے متعلقہ آرٹیکل کی طرف مبذول کروائی جس کے تحت پارٹی سربراہ چوہدری شجاعت حسین ان کے بقول ووٹنگ کے لیے پارٹی کے ارکان اسمبلی کو ہدایت دینے کے مجاز نہیں ۔ اس پر ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست مزاری نے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دے کر حمزہ شہباز کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ پی ٹی آئی کے راجہ بشارت نے اس پراس انتخاب کے فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا۔

پنجاب اسمبلی: ارکان اسمبلی کی بولیاں لگانے والوں کا احتساب کون کرے گا؟

ن لیگ کی شکست: نئے انتخابات کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں نئے وزیر اعلی کے انتخاب کے لئے ہونے والا اجلاس جمعے کی شام کو تین گھنٹے کی تاخیرکے بعد شروع ہوا۔

 پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کی صدارت میں شروع ہونے والے اجلاس میں نو منتخب رکن اسمبلی صغیر راجا نے حلف اٹھایا۔ سپریم کورٹ کے حکم پر شروع ہونے والے اس اجلاس میں ڈپٹی اسپیکر نے ایوان کو بتایا کہ تین سو اکہتر کے اس ایوان میں کامیابی کے لیے نئے قائد ایوان کو ایک سو چھیاسی ارکان کی حمایت درکار ہو گی۔ لیکن چونکہ اس الیکشن کا ایک مرحلہ پہلے ہی مکمل کیا جا چکا ہے اس لیے اس انتخاب میں سادہ اکثریت حاصل کرنے والا امیدوار ہی قائد ایوان ہو گا۔

Pakistan Lahore | Politische instabilität in Punjab
سابق وزیراعلیٰ عثمان بزدار اسمبلی پہنچےتصویر: Tanvir Shahzad/DW

اس انتخاب میں پی ٹی آئی کی طرف سے مسلم لیگ قاف کے رہنما چوہدری پرویز الہی وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے، ان کے مقابلے میں پاکستان مسلم لیگ نون کے حمزہ شہباز نے اس الیکشن میں حصہ لیا۔  انتخاب سے پہلے امیدواروں کو بلانے کے لیے گھنٹیاں بجائی گئیں اور پنجاب اسمبلی کے دروازے بند کر دیے گئے۔

اس اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ نون کے دو الگ الگ ہوٹلوں میں ٹھہرے ہوئے ارکان اسمبلی کو بسوں کے ذریعے اسمبلی ہال لایا گیا۔ اس اجلاس میں شرکت کے لیے کورونا وائرس کی شکار پنجاب اسمبلی میں پاکستان مسلم لیگ نون کی رکن عظمی زعیم حفاظتی کٹ اور طبی عملے کے ساتھ بیماری کی حالت میں ووٹ ڈالنے کے لیے پنجاب اسمبلی پہنچیں۔

پنجاب کے نئے وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے پس پردہ جوڑ توڑ جمعے کی شام تک جاری رہی۔ پچھلی رات چوہدی شجاعت کے ساتھ چھ گھنٹے کی طویل ملاقات کرنے والے پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری ایک مرتبہ پھر چوہدری شجاعت کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان کے گھر پہنچ گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق چوہدری شجاعت نے ایک خط کے ذریعے مبینہ طور پر پی ٹی آئی کے امیدوارکے طور پر چوہدری پرویز الہی کی حمایت سے معذرت کر لی تھی۔ انہوں نے اپنے بھانجے مونس الہی کی طرف سے پرویز الہی کے لیے حمایت کی درخواست بھی رد کر دی تھی۔

آج وزیراعظم پنجاب کے انتخاب کے دن اسمبلی ہال کے اندر اور باہر سیکورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ اسمبلی کے داخلی اور خارجی دروازے بند کر دیے گئے۔ اسمبلی کی عمارت میں مہمانوں کے داخلے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر پنجاب پولیس کے اہلکاروں کو اسمبلی میں داخلے سے روک دیا گیا تھا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ پولیس صرف طلب کرنے پر ہی سفید کپڑوں میں اسمبلی کی عمارت کے اندر جا سکے گی۔

Pakistan Lahore | Politische instabilität in Punjab
صوبائی اسمبلی کے باہر ن لیگ اور تحریک انصاف کے ارکان کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئیتصویر: Tanvir Shahzad/DW

پنجاب اسمبلی کے باہر میڈیا ارکان، سیاسی کارکنوں اور سیکورٹی اہلکاروں کی بڑی تعداد موجود رہی۔ چوہدری پرویز الہی، وزیراعلیٰ حمزہ شہباز اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار بھی اجلاس میں شرکت کے لیے دیگر ارکان کے ہمراہ اسمبلی ہال پہنچے۔

اسمبلی ہال کے باہر پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان تلخی اور ہلکی پھلکی جھڑپوں کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے جب  کہ ا س دوران انہوں نے ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔

وزیراعلیٰ کے انتخاب سے پہلے پنجاب کے آئی جی پولیس راؤ سردار کو تبدیل کرکے انہیں ریلوے پولیس کا انسپکٹر جنرل تعینات کر دیا گیا اور  فیصل شاہکار کو نیا آئی جی پنجاب لگا دیا گیا۔ پنجاب کے چیف سیکریٹری نے بھی کام جاری رکھنے سے معذرت کی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے ان دونوں افسروں کے خلاف کارروائی کا اعلان کر رکھا تھا۔

سینیئر تجزیہ کار ارشاد احمد عارف نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب اسمبلی کے انتخاب کے بعد بھی ملک میں جاری سیاسی بحران ختم نہیں ہو سکے گا۔ ان کے نزدیک  ملک میں جاری بحران کے خاتمے کا واحد حل یہ ہے کہ فوری طور پر عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ ان کے بقول، ''پنجاب کی وزارت اعلیٰ کے لیے پاکستان تحریک انصاف کے نمبرز زیادہ ہیں، ان کا راستہ غیر جمہوری طریقے سے روکنے سے سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہو گا۔‘‘

پاکستان میں ایک قومی ٹی وی چینل سے وابستہ نوجوان تجزیہ کار زنیرہ اظہر نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے انتخاب سے ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ووٹر کی اہمیت کے ہم جتنے مرضی دعوے کر لیں آخر میں اصل فیصلے سیاسی اشرافیہ کی مرضی سے ہی ہوتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات افسوسناک ہے کہ پاکستان کے ووٹروں کو درپیش مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں اور سب کی توجہ اپنے اپنے مفادات کی طرف مرکوز ہے۔

ایک سوال کے جواب میں زنیرہ کا کہنا تھا کہ انہیں نہیں لگتا کہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے انتخاب کے بعد بھی ملک کے حالات سنبھل سکتے ہیں۔ ان کی رائے میں جب تک عام انتخابات نہیں ہوتے ملک میں سیاسی عدم استحکام رہے گا اور اگر سیاسی استحکام نہ آ سکا تو پھر معاشی استحکام بھی ممکن نہیں ہو سکے گا۔

محاز آرائی نہیں بلکہ احتساب چاہتے ہیں، فواد چوہدری