1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حفظان صحت کی دنیا میں ایک نیا افق

زبیر بشیر28 نومبر 2013

آسٹریلوی سائنسدانوں کی ایک چونکا دینے والی دریافت نے حفظانِ صحت کی دنیا میں ایک نیا در وا کر دیا ہے۔ اس تازہ تحقیق کے مطابق ڈریگن فلائی کے پر کی ساخت ایسی ہے کہ بیکٹیریا اسے چھوتے ہی مر جاتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1APke
تصویر: Getty Images

بیکٹیریا ایک ایسا خوردبینی جرثومہ ہے، جو ہر جگہ پایا جاتا ہے۔ ہسپتال کا کمرہ ہو، دروازے کا ہینڈل یا باورچی خانے کے کاؤنٹر کا اوپری حصہ، کوئی بھی جگہ اس سے محفوظ نہیں رہ پاتی لیکن ڈریگن فلائی (بھنبھیری یا کابلی مکھی) کا پر وہ ایسی جگہ ہے، جہاں یہ بیکٹیریا نہیں پائے جاتے۔

منگل کے روز ایک سائنسی جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر بھنبھیری کے پَر کو الیکٹرانک خوردبین کے نیچے دیکھا جائے تو اس پر کانٹوں کا ایک جنگل نظر آتا ہے۔ لوہے کے کیل نما ان نوک دار اجسام کی اوسط اونچائی 500 نینو میٹر (ایک میٹر کا پانچ سو بلین واں حصہ) ہوتی ہے، جونہی کسی بیکٹیریا کی خلوی دیوار ان کانٹوں کو چھُوتی ہے، اس میں سوارخ ہوجاتا ہے اور یوں اس بیکٹیریا کی موت واقع ہو جاتی ہے۔

اس سے قبل یہ صلاحیت سن 1990ء میں بلیک سیلیکون نامی مادے میں دریافت ہوئی تھی۔ یہ میٹریل آج کل شمسی توانائی کے پینل بنانے میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے اوپر بھی ڈریگن فلائی کے پروں کی طرح چھوٹے چھوٹے کانٹے موجود ہوتے ہیں۔

Frühling Libelle Insekt
بھنبھیری کے پَر انسانی ہاتھ سے چھوئے جانے پر ملائم محسوس ہوتا ہےتصویر: AP

گزشتہ برس میلبورن کی سوائن بَرن یونیورسٹی میں ایلینا ایوانوا کی قیادت میں کام کرنے والی سائنسدانوں کی ٹیم نے یہ دریافت کیا کہ جھینگر کے پر سوڈوموناس آئروگینوزا نامی بیکٹیریا کو ہلاک کر دیتے ہیں۔ یہ خوردبینی جرثومہ انسانی جسم سمیت مختلف اجسام میں پنپنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ ان پروں پر کوئی کیمیائی مادہ موجود نہیں بلکہ وہاں انتہائی باریک کانٹوں کا ایک جنگل موجود ہے، جو ان جراثیموں کی موت کا باعث بنتا ہے۔

محققین نے اس تحقیق کو مزید آگے بڑھایا اور اس دوران انہوں نے سرخ رنگ کی آسٹریلوی ڈریگن فلائی کے پروں کا معائنہ کیا۔ اس کے پروں پر موجود کانٹے اور بھی زیادہ چھوٹے تھے، ان کا سائز 240 نینو میٹرز تھا۔ انہوں نے لیبارٹری میں بلیک سیلیکون اور مکھی کے ان پروں کا اکٹھے مشاہدہ بھی کیا۔ یہ دونوں ہی بیکٹیریا کے لیے یکساں موت کا سامان ثابت ہوئے۔

انسانی ہاتھ سے چھونے پر ملائم اور ہموار محسوس ہونے والے ان دنوں اجسام نے ہر دوطرح کے بیکٹیریا، گرام پازیٹو، گرام نیگٹو اور ان کے سپورز کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔

اس تحقیق کے دوران ان پروں کے ایک مربع سینٹی میٹر علاقے میں ابتدائی تین گھنٹوں میں بیکٹیریائی خلیوں کے تباہ ہونے کی شرح چار لاکھ پینتالیس ہزار فی منٹ رہی۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ بلیک سیلیکون کی تیاری ایک مشکل اور مہنگا کام ہے۔ حالیہ تحقیق کے بعد اب اس مکھی کے پر کے طرز کی کوئی باریک سطح تیار کرنے پر غور کیا جائے گا، جو بیکٹریا سے اشیا کو محفوظ رکھ سکے۔