1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حافظ سعید کی نظر بندی کے خلاف پاکستان میں احتجاجی مظاہرے

علی کیفی اے ایف پی
31 جنوری 2017

جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کی نظر بندی کے خلاف منگل اکتیس جنوری کو پاکستان کے اہم شہروں میں احتجاجی مظاہروں کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ حکومت پر برسوں سے اُن کے اور اُن کے گروپ کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ تھا۔

https://p.dw.com/p/2WgzQ
Pakistan Konferenz in Quetta
حافظ سعید باقاعدگی کے ساتھ پاکستان میں مختلف اجتماعات میں شرکت کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیںتصویر: DW/A. Ghani Kakar

گزشتہ شام وزارتِ داخلہ کے ایک حکم کے تحت اُنہیں ان کے گھر پر نظر بند کر دیا گیا تھا۔ شعلہ بیان مقرر حافظ سعید کو، جن کے سر کی قیمت دَس ملین ڈالر ہے، سن 2008ء میں ممبئی میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کا مبینہ ’ماسٹر مائنڈ‘ کہا جاتا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے ایک رپورٹر کے مطابق پولیس نے پیر تیس جنوری کی شام حافظ سعید کو لاہور کی ایک مسجد سے اپنی تحویل میں لیا اور اُنہیں اپنی حفاظت میں اُن کی رہائش گاہ پر چھوڑ آئی، جہاں اُنہیں بتایا گیا کہ اب وہ ’حفظ ماتقدم‘ کے طور پر گھر پر ہی نظر بند رہیں گے۔

پولیس کے ہمراہ اپنی رہائش گاہ کے لیے روانہ ہونے سے پہلے حافظ سعید نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’میری نظر بندی کے احکامات غیر قانونی ہیں اور ہم انہیں عدالت میں چیلنج کریں گے۔‘‘ اُنہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ’یہ احکامات واشنگٹن سے آئے ہیں‘۔

جماعت الدعوۃ کو اقوام متحدہ کی جانب سے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیا جاتا ہے اور امریکا اور بھارت دونوں ہی کے خیال میں دراصل عسکریت پسند تنظیم ’لشکر طیبہ‘ کے پیچھے اسی جماعت کی طاقت کارفرما ہے۔ واضح رہے کہ لشکرِ طیبہ کو بھارت کے کاروباری مرکز ممبئی پر 2008ء میں ہونے والے دہشت گردانہ حملوں کے لیے قصور وار قرار دیا جاتا ہے۔ امریکی دفترِ خارجہ بھی حافظ سعید کو ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں میں سے  ایک تصور کرتا ہے۔

حافظ سعید کی نظر بندی پر ابھی تک امریکا یا بھارت کی جانب سے کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔

Muhammad Ahmed Ludhianvi links im Bild von der Ahlan Sunnat wal Jamaat
حافظ سعید (درمیان میں) کے سر کی قیمت دَس ملین ڈالر رکھی گئی ہے لیکن وہ آزادی سے ایک سے دوسری جگہ آتے جاتے ہیںتصویر: Getty Images/AFD/A.Majeed

جماعت الدعوۃ کے عہدیداروں نے اے ایف پی کو بتایا کہ منگل اکتیس جنوری کو اسلام آباد، کراچی اور لاہور سمیت پاکستان کے بڑے شہروں میں احتجاجی مظاہرے کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس تنظیم کے ایک ترجمان ندیم اعوان نے اس امر کی تصدیق کی کہ نظر بندی کے احکامات کے خلاف عدالت سے بھی رجوع کیا جا رہا ہے۔

ممبئی میں پیش آنے والے ہولناک واقعات کو پوری دنیا نے ٹیلی وژن کی اسکرینوں پر براہِ راست دیکھا تھا، جب بھارتی سکیورٹی فورسز کے کمانڈوز بھاری اسلحے سے لیس اُن حملہ آوروں سے نبردآزما تھے، جو چھبیس نومبر 2008ء کی شام سمندر کے راستے وہاں پہنچے تھے۔

تب حملہ آوروں پر قابو پانے میں بھارتی حکام کو تین دن لگ گئے تھے اور نئی دہلی حکومت تبھی سے یہ کہتی رہی ہے کہ اس حملے کی منصوبہ بندی میں پاکستان کی ’سرکاری ایجنسیوں‘ کے ملوث ہونے کے شواہد موجود ہیں۔ اسلام آباد حکومت ان الزامات کو مسترد کرتی چلی آ رہی ہے۔

دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ جماعت الدعوۃ برسوں سے پاکستان بھر میں آزادانہ طریقے سے اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ یہ تنظیم اپنے فلاحی کاموں کی وجہ سے بہت مقبول ہے اور خاص طور پر قدرتی آفات کی صورت میں فلاحی کاموں میں پیش پیش رہتی ہے۔

Pakistan Konferenz in Quetta
حافظ سعید (دائیں) کو کوئٹہ میں ایک اجتماع کے دوران بلوچ عمائدین کی جانب سے روایتی چادر پیش کی جا رہی ہےتصویر: DW/A. Ghani Kakar

اگرچہ حافظ سعید کے سر کی قیمت بھی مقرر ہے لیکن وہ آزادی سے ایک سے دوسری جگہ آتے جاتے ہیں اور باقاعدگی کے ساتھ پاکستان بھر میں مختلف اجتماعات میں شرکت کرتے ہوئے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والوں کی حمایت کرتے ہیں اور بھارت کے خلاف پُر جوش تقاریر کرتے ہیں۔

بھارت عرصے سے اس بات پر غم و غصے کا اظہار کرتا رہا ہے کہ پاکستان ممبئی حملوں کے منصوبہ سازوں کو بھارت کے حوالے کرنے یا اُن کو عدالت کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہا ہے۔ جواب میں پاکستان یہ کہتا رہا ہے کہ بھارت ٹھوس شواہد اُس کے حوالے کرنے میں ناکام رہا ہے۔

نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق سرِدست یہ بات غیر واضح ہے کہ حکومتِ پاکستان نے حافظ سعید کو نظر بند کرنے کا اقدام کس وجہ سے کیا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے احکامات کے تحت حافظ سعید کے علاوہ اُن کے چار قریبی ساتھیوں کو بھی نظر بند کر دیا گیا ہے۔

جس وقت پولیس حافظ سعید کو لے کر جا رہی تھی، اُنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ اُن کی تحریک ’کشمیر کی آزادی تک‘ جاری رہے گی۔