1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جیش محمد کے خلاف کارروائی کر رہے ہیں، پاکستانی وزیر اطلاعات

5 مارچ 2019

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہا ہے کہ کالعدم تنظیموں کے خلاف پاکستان کی کارروائی کشمیر کے معاملے پر بھارت کے بڑھتے ہوئے دباؤ کا نتیجہ نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/3EUoW
Taliban-Kämpfer
تصویر: AP

پاکستانی حکومت کی طرف سے پیر چار مارچ کو اعلان کیا گیا کہ وہ ملک میں موجود عسکری تنظیموں کے خلاف ’فیصلہ کُن‘ کارروائی کرے گی۔ یہ اعلان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازعہ خطے کشمیر کے حوالے سے دونوں ممالک کے درمیان تناؤ میں شدید اضافہ ہو چکا ہے۔ بھارتی زیر انتظام کشمیر میں 14 فروری کو ایک خودکش کار بم دھماکے کے نتیجے میں بھارتی سکیورٹی فورسز کے 40 سے زائد اہلکار ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کی ذمہ داری پاکستان میں وجود رکھنے والی ایک عسکریت پسند تنظیم جیش محمد نے قبول کی تھی۔ بھارت نے اس حملے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتے ہوئے اس کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔

جوہری ہتھیار کی حامل یہ دو ہمسایہ ریاستیں گزشتہ ہفتے اُس وقت جنگ کے دہانے تک پہنچ گئی تھیں جب بھارت کی طرف سے پاکستانی علاقے میں ایک فضائی کارروائی کی گئی۔ اس کے اگلے ہی دن پاکستانی فضائیہ نے بھی بھارتی زیر انتظام کشمیر میں جوابی کارروائی کی اور ساتھ ہی پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے ایک بھارتی جنگی طیارے کو مار گرایا۔ اس طیارے کے پائلٹ کو گرفتار کر لیا گیا تاہم پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے کشیدگی میں کمی کے لیے یکم مارچ کو بھارتی پائلٹ کو وطن واپس بھیج دیا۔

ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں پاکستانی وزیر اطلاعات ونشریات فواد چوہدری نے کہا کہ حکومت نے پاکستان میں وجود رکھنے والی عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا ہے اور یہ کارروائی در اصل نیشنل ایکشن پلان کا حصہ ہے جس پر ملک میں دہشت گردی اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا تھا۔

ڈی ڈبلیو: اسلام آباد نے کہا ہے کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔ کیا یہ فیصلہ نئی دہلی کے ساتھ جاری حالیہ تناؤ کا نتیجہ ہے؟

فواد چوہدری: اس کا بھارت کے ساتھ تناؤ میں اضافے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ پاکستان نے 2014ء میں ایک نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا اور اس نے اس منصوبے پر عملدرآمد کرتے ہوئے عسکریت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر رکھا ہے۔ ہم نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) کی شرائط پر بھی عمل کرنا ہے اور ہمیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ لہٰذا ہم نے پلوامہ حملے سے قبل ہی ایسے گروپوں کے خلاف کارروائی شروع کر رکھی ہے۔ حالیہ اقدامات پاکستان کی نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی طرف سے رواں برس جنوری میں کیے گئے فیصلوں کے تناظر میں کیے جا رہے ہیں۔

Pakistan Imran Khan und Tehreek-i-Insaf-Sprecher Fawad Chaudhry
پاکستانی وزیر اطلاعات فواد چوہدری ملکی وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ۔تصویر: AFP/Getty Images

ڈی ڈبلیو: ہم يہاں کون سے عسکریت پسند گروپوں کی بات کر رہے ہیں؟

فواد چوہدری: یہ کالعدم تنظیمیں ہیں۔ نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی گزشتہ میٹنگ میں ہم نے جماعت الدعوہ اور فلاح انسانیت نامی تنظیموں کے ساتھ کئی دیگر گروپوں پر اپنے ملکی قوانین کے تحت پابندی عائد کر دی تھی۔

ڈی ڈبلیو: کیا جیش محمد (JeM) بھی، جس نے پلوامہ حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی ان گروپوں میں شامل ہے جن کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے؟

فواد چوہدری: جیش محمد پر 2002ء سے پابندی عائد ہے۔

ڈی ڈبلیو: اور جیش محمد کے خلاف بھی ایکشن لیا جائے گا؟

فواد چوہدری: یہ پہلے ہی اس فہرست پر ہے، اس لیے اس گروپ کے خلاف بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔

ڈی ڈبلیو: لیکن یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ پاکستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ تنظیمیں ابھی بھی ملک میں سرگرم عمل ہیں۔ ماضی کی کارروائیوں کے نتائج کیوں سامنے نہ آ سکے؟

فواد چوہدری: ہمیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ 1980ء کی دہائی میں افغانستان میں سوویت یونین کی موجودگی کے دوران مغرب خود شدت پسند گروپوں کی مدد کرنے میں شامل رہا ہے۔ زیادہ تر جہادی لٹریچر اُس وقت نبراسکا یونیورسٹی میں تیار کیا گیا۔ مگر اس تنازعے کے خاتمے کے بعد مغرب تو وہاں سے نکل گیا اور قصور دوسروں پر ڈال دیا۔ مغرب اس فلاسفی کی مدد کر رہا تھا جس پر یہ گروپ ابھی بھی عمل پیرا ہیں۔ بہر حال ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم کسی بھی ایسے گروپ کو عسکریت پسندی کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے۔

ڈی ڈبلیو: پاکستان اور بھارت کے درمیان موجودہ تناؤ کے خاتمے کے لیے آپ کے خیال میں جرمنی اور یورپی یونین کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟

فواد چوہدری: یورپی یونین سمیت عالمی برادری سے صرف ایک چیز جس کی ہم توقع کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ کشمیر سے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل کیا جائے اور وہاں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر توجہ دی جائے۔ نئی دہلی اپنے دس لاکھ کے قریب فوجی کشمیر میں تعینات کر چکا ہے۔ یہ دنیا کا سب سے زیادہ فوجی موجودگی رکھنے والا خطہ ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وہاں ایک معمول بن چکی ہیں۔ کشمیری عوام کے حقوق کو تسلیم کیا جانا چاہیے اور اس حوالے سے بھارت کا محاسبہ کیا جانا چاہیے۔ اگر کشمیری بھارت کے ساتھ نہیں رہنا چاہتے تو نئی دہلی کس طرح انہیں اس پر مجبور کر سکتا ہے؟ میرا خیال ہے کہ بین الاقوامی برادری اس کا ادراک رکھتی ہے اور بھارت کو کشمیر کے حوالے سے اب بڑھتے ہوئے بین الاقوامی دباؤ کا سامنا ہے۔

 

فواد چوہدری اگست 2018ء سے پاکستان کے وزیر اطلاعات و نشریات کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

فواد چوہدری سے یہ انٹرویو ڈی ڈبلیو کے شامل شمس نے کیا۔

ڈی ڈبلیو کے ایڈیٹرز ہر صبح اپنی تازہ ترین خبریں اور چنیدہ رپورٹس اپنے پڑھنے والوں کو بھیجتے ہیں۔ آپ بھی یہاں کلک کر کے یہ نیوز لیٹر موصول کر سکتے ہیں۔