1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جہانگیر ترین: کتنے ہلکے کتنے سنگین‘

10 اپریل 2021

جہانگیر ترین کی حمایت میں سامنے آنے والے دو درجن سے زائد اراکین پارلیمنٹ کی ’’بغاوت‘‘ نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ صورتحال تحریک انصاف میں ایک نئے فارورڈ بلاک کے قیام کی طرف جا رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/3rp0v
Pakistan Imran Khan, Oppositionspolitiker
تصویر: DW/S. Khan Tareen

پاکستان میں اس تاثر کو تقویت مل رہی ہے کہ جہانگیر ترین کا معاملہ محض شوگر اسکینڈل کی تحقیقات تک محدود نہیں ہے  بلکہ بات اس سے کہیں آگے جا چکی ہے۔ دنیا گروپ سے وابستہ ایک سینئر تجزیہ کار سلمان غنی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''جہانگیر ترین کے ساتھ جو لوگ کھڑے ہیں ان کے پیچھے وہی قوتیں کارفرما ہیں جو الیکشن سے پہلے جنوبی پنجاب محاذ کے لئے لوگ اکٹھے کر رہی تھیں، جنوبی پنجاب کے ارکان اور آزاد رکن کے طور پر جیت کر حکومتی پارٹی میں شامل ہونے والے اراکین اسمبلی کی تاریخ گواہ ہے کہ وہ کسی کے اشارے پر ہی ادھر ادھر حرکت کرتے ہیں۔‘‘

ایف آئی اے کی رپورٹ: وفاقی کابینہ میں بڑی تبدیلیاں

جہانگیر ترین کی اہمیت

سما ٹی وی سے وابستہ سینئر تجزیہ کار ندیم ملک کا خیال ہے کہ جہانگیر ترین جیسے شخص کی حمایت میں  وزیروں اور مشیروں سمیت دو درجن سے زائد ارکین اسمبلی کے حکومتی فیصلے کے خلاف ڈٹ جانے سے حکومتی ایوان میں بہت سخت پیغام گیا ہے۔

Pakistan Parlamentarier Jahangir Taree Lahore
جہانگیر ترین کے عشائیے میں شریک اراکین اسمبلی اور دوسری سیاسی شخصیاتتصویر: privat

ان کا مزید کہنا تھجا، ''ترین فیکٹر عمران حکومت کو کس حد تک نقصان پہنچا سکتا ہے ابھی اس کا اندازہ اس لیے نہیں لگایا جا سکتا کہ میرے خیال میں اسٹیبلشمنٹ تمام اختلافات کے باوجود عمران حکومت کو ختم کرنے پر ابھی تیار نہیں ہے جبکہ پنجاب میں عثمان بزدار کو ہٹا کر کس کو لانا ہے اس پر بھی اتفاق نہیں ہو پا رہا۔ ‘‘

کیا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ 'شوگر مافیا‘ کو سزا ملنے والی ہے؟

جہانگیر ترین کا عشائیہ سیاسی قوت کا نشان

 پچھلی رات جہانگیر ترین کے عشائیے میں شرکت کرنے والے تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ابھی صرف دو صوبائی وزیروں ، چار صوبائی مشیروں کے علاوہ آٹھ ارکان قومی اسمبلی اور اکیس اراکین صوبائی اسمبلی نے حکومتی اقدام کے خلاف جہانگیر ترین کے حق میں کھلم کھلا آواز اٹھائی ہے لیکن ان کے بقول ابھی اسمبلیوں میں موجود تقریبا اتنے ہی اراکین نے اپنی شناخت ظاہر نہیں کی ہے۔

Pakistan Islamabad Versammlung Imran Khan
راولپنڈی میں ایک سیاسی جلسے میں عمران خان کے ساتھ شیخ رشید اور جہانگیر ترینتصویر: picture alliance/ZUMA Press

ان کے بقول جہانگیر ترین کے پیپلز پارٹی، قاف لیگ اور مسلم لیگ نون میں بھی  پرانے رابطے ہیں، اگر ان کی بات کو نہ سنا گیا تو پھر بہت ہی قلیل اکثریت پر کھڑی حکومت کے لئے بہت مشکلات پیدا ہو جائیں گی۔

کیا پی ٹی آئی میں تقسیم کے امکانات بڑھ رہے ہیں؟

ڈیمج کنٹرول اسٹریٹیجی

پنجاب حکومت کےایک  صوبائی وزیر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ عمران خان کے لاہور کے حالیہ دورے کے دوران پنجاب سے تعلق رکھنے والے دو وفاقی وزرا اور گورنر پنجاب نے وزیر اعظم کو ترین کی حمایت میں سامنے آنے والے ارکان اسمبلی کے فیصلوں کی سنگینی سے آگاہ کیا تھا ، اس موقعے پر ایک ''ڈیمج کنٹرول سٹریٹجی‘‘ بھی بنائی گئی لیکن مفاہمت کے لئے جانے والے وزرا کو کوئی کامیابی نہ مل سکی۔ اس رکن اسمبلی کا مزید کہنا تھا، ''اب حکومت مخالف ارکان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے گا لیکن وہ جائیں کے کس طرف اس کا فیصلہ پیچھے بیٹھی ہوئی طاقتیں ہی کریں گی‘‘

Pakistan Lahore - Usman Buzdar wurde zum Ministerpräsidenten gewählt.
پاکستانی صوبے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کو ہٹائے جانے کی قیاس آرائیاں بھی زوروں پر ہیںتصویر: T. Shahzad

ترین فیکٹر اور حکومتی تبدیلی کا امکان

سلمان غنی کا خیال ہے کہ ترین فیکٹر کے نتیجے میں حکومتی تبدیلی کی بات کرنا ابھی بہت قبل از وقت ہے۔ ان کے خیال میں عثمان بزدارکی حکومت کی حفاظت عملی طور پر پاکستان مسلم لیگ نون کر رہی ہے، وہ پنجاب میں ابھی تبدیلی نہیں چاہتی اور نہ ہی چوہدری پرویز الہی سے تعاون کو بہتر خیال کرتی ہے۔ سلمان غنی کے الفاظ میں پی ٹی آئی میں بننے والا فارورڈ بلاک آنے والے دنوں میں کس طرف کا رخ کرے گا، اس کا فیصلہ بظاہر کوئی اور کرے گا۔