1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہاز مار گرانے پر ترکی کی جانب سے روس سے معذرت

27 جون 2016

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے گزشتہ برس اپنی فوج کے ہاتھوں نشانہ بنائے گئے روسی جنگی طیارے کی تباہی پر باقاعدہ طور پر معذرت طلب کی ہے۔ اس واقعے میں ایک روسی پائلٹ ہلاک ہو گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1JEZm
Türkei PK Erdogan
تصویر: picture-alliance/AA/R. Aydogan

پیر کے روز انقرہ اور ماسکو حکومتوں کی جانب سے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے اپنے روسی ہم منصب ولادیمیر پوٹن کے نام ایک خط میں معذرت کی۔ ترک فورسز نے یہ طیارہ شامی سرحد پر مار گرایا تھا۔ ترکی کا موقف تھا کہ اس روسی جنگی طیارے نے ترک فضائی حدود کی خلاف ورزی کی، جب کہ روس کا کہنا تھا کہ اس طیارے کو شامی علاقے میں تباہ کیا گیا۔

گزشتہ برس نومبر میں اس طیارے کی تباہی کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ ہو گئے تھے، جب کہ ایک دوسرے کے خلاف سخت بیانات کا تبادلہ بھی کیا گیا تھا۔ روس کا موقف تھا کہ وہ ترکی کے ساتھ کسی بھی قسم کی بات چیت سے قبل اس واقعے پر باقاعدہ معذرت چاہتا ہے۔

Türkei Syrien Kampfjet Russland Abschuss Grenzgebiet
ترکی نے روسی جنگی طیارہ مار گرایا تھاتصویر: picture-alliance/dpa/Haberturk Tv Channel

ترک صدر کے ترجمان ابراہیم کالِن نے پیر کے روز ایک بیان میں بتایا کہ صدر ایردوآن نے اس مراسلے میں ہلاک ہونے والے روسی پائلٹ کے اہل خانہ سے تعزیت بھی کی ہے۔ ترجمان کے مطابق، ’’ایردوآن نے اپنے مراسلے میں کہا ہے کہ وہ روسی پائلٹ کے اہل خانہ کے دکھ میں شریک ہیں اور ان سے تعزیت کرتے ہیں اور امید ہے کہ وہ ہمیں معاف کر دیں گے۔‘‘

اس سے قبل ماسکو حکومت نے بھی بتایا تھا کہ صدر پوٹن کو ترک صدر کا معذرت نامہ موصول ہوا ہے۔ ماسکو حکام کے مطابق ایردوآن نے اس خط میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے زور دیا ہے کہ وہ روس کے ساتھ روایتی قریبی تعلقات کے احیاء کے لیے تمام ممکنہ کوشش کریں گے۔ اس کے علاوہ ترک صدر کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تنازعات کے علاقے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی وہ روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہاں ہیں۔

یہ بات اہم ہے کہ شامی تنازعے پر روس اور ترکی کے موقف میں مکمل تضاد ہے۔ ترکی چاہتا ہے کہ صدر بشارالاسد کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور وہاں کسی آئندہ عبوری حکومت میں بھی ان کا کوئی دخل نہ ہو، جب کہ روس بشارالاسد کا قریبی اتحادی ہے۔