1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جولیان آسانج کو ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے دو برس مکمل

افسر اعوان19 جون 2014

جولیان آسانج نے آج سے دو برس قبل یعنی 19 جون 2012ء کو برطانیہ سے سویڈن بدر کیے جانے کے برطانوی عدالتی فیصلے کے بعد ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے لی تھی۔

https://p.dw.com/p/1CM5I
تصویر: Getty Images

انہیں خوف تھا کہ سویڈن بھیجا جانا بالآخر ان کی امریکا حوالگی پر منتج ہو گا۔ وکی لیکس کی جانب سے عراق اور افغانستان جنگ کے حوالے سے ہزاروں خفیہ دستاویزات جاری کی گئی تھیں اور اسی باعث امریکا میں ان کے خلاف کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے۔

انٹرنیٹ پر خفیہ معلومات عام کرنے والی ویب سائٹ وکی لیکس کے بانی جولیان آسانج اپنی آزادی یقینی بنانے کی تازہ کوشش شروع کرنے والے ہیں۔ وہ امریکا کے حوالے کیے جانے کے خوف کے باعث گزشتہ دو برس سے لندن میں قائم ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔ آسٹریلیا کے شہری جولیان آسانج کے وکلاء اگلے ہفتے سویڈن حکام کو ’نئی معلومات‘ پیش کریں گے تاکہ ان کے خلاف گزشتہ چار برس سے جاری جنسی زیادتی کے الزامات کا خاتمہ ہو سکے۔ جولیان آسانج ان الزامات کی تردید کرتے ہیں۔

ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ حاصل کرنے کو دو برس مکمل ہونے پر صحافیوں کے ساتھ ایک کانفرنس کال کے دوران آسانج نے امریکا کو آڑے ہاتھوں لیا۔ اس موقع پر 42 سالہ جولیان آسانج نے خفیہ معلومات عام کرنے والے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کے ساتھ یکجہتی کا بھی اظہار کیا۔ گزشتہ برس جون میں امریکی خفیہ اداروں کی کارروائیوں سے متعلق خفیہ معلومات عام کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن اس وقت روس میں عارضی سیاسی پناہ حاصل کیے ہوئے ہیں۔

جولیان آسانج نے خفیہ معلومات عام کرنے والے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کے ساتھ یکجہتی کا بھی اظہار کیا ہے
جولیان آسانج نے خفیہ معلومات عام کرنے والے امریکی خفیہ ادارے این ایس اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کے ساتھ یکجہتی کا بھی اظہار کیا ہےتصویر: Peter Macdiarmid/Getty Images

ان کے وکلاء کے مطابق سویڈن میں آسانج کے خلاف مقدمے کے حوالے سے وہ منگل 24 جون کو اسٹاک ہوم کی عدالت میں معلومات جمع کرائیں گے۔ تاہم انہوں نے اس ’نئی معلومات‘ کے بارے میں مزید تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

اسانج کے مطابق سویڈن میں اگر ان کے خلاف مقدمہ خارج ہو جاتا ہے تو یہ محض اس قانونی جنگ کا ایک مرحلہ ہو گا جس کے باعث انہیں ایکواڈور کی ایمبیسی میں پناہ لینا پڑی تھی۔ ان کا کہنا تھا، ’’مجھے پھر بھی ایک بڑا مسئلہ درپیش ہے، وہ امریکا اور اس کی طرف سے مؤخر قانونی کارروائی اور شاید حوالگی کے وارنٹ ہو سکتے ہیں۔‘‘

ایکواڈور آسانج کے امریکا حوالے کیے جانے کے خدشات کو تسلیم کرتا ہے۔ ایکواڈور کے صدر رافائل کوریا Rafael Correa اسی ہفتے کہہ چکے ہیں کہ آسانج جب تک چاہیں لندن میں ان کے سفارت خانے میں مقیم رہ سکتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس بات کا دار و مدار برطانیہ اور سویڈن پر ہے کہ وہ کسی معاہدے تک پہنچتے ہیں یا نہیں۔

تاہم برطانیہ آسانج کو ایکواڈور کے سفارت خانے سے نکل کر کہیں اور جانے کی اجازت دینے سے انکار کر چکا ہے۔ برطانیہ سفارت خانے کے اطراف ہمہ وقت سکیورٹی پر سالانہ کئی ملین پاؤنڈز خرچ کر رہا ہے۔ گزشتہ برس برطانیہ اور ایکواڈور کی حکومتوں نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی تھی کہ آسانج کو وہاں سے نکالنے کی راہ تلاش کرنے کے لیے ایک ورکنگ گروپ تشکیل دیا جائے گا تاہم اس پر ابھی تک کوئی پیشرفت سامنے نہیں آئی۔

آسانج کے وکلاء کے مطابق آزادی اظہار کے لیے کام کرنے والی دنیا کی 30 سے زائد تنظیمیں امریکی اٹارنی جنرل ایرک ہولڈر کو لکھیں گی کہ وہ وکی لیکس کے خلاف تحقیقات کو ختم کر دیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے 59 ادارے اقوام متحدہ کو بھی آسانج کے حق میں ایک یادداشت بھیجیں گے جس میں سویڈن کی جانب سے قبل از سماعت کارروائی کی مذمت کی جائے گی۔