1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوليان اسانج آزادی اظہار رائے کے چيمپئن يا ايک عام مجرم؟

24 فروری 2020

عراق اور افغانستان ميں امريکی جنگوں کے کئی خفيہ راز فاش کرنے والے جوليان اسانج کی امريکا حوالگی پر پير لندن کی ايک عدالت ميں کارروائی شروع ہو گئی ہے۔ عدالت يہ فيصلہ کرے گی کہ اسانج کو امريکا بھيجا جائے يا نہيں۔

https://p.dw.com/p/3YJFq
Bangladesch Protest gegen Inhaftierung von Julian Assange
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Asad

وکی ليکس کے بانی جوليان اسانج کی حوالگی کے ليے امريکی درخواست پر پير چوبيس فروری سے لندن کے ايک عدالت ميں کارروائی شروع ہوئی۔ اس کيس کی ابتدائی سماعت ميں واشنگٹن حکومت کی نمائندگی کرنے والے وکيل جيمز لوئيس نے موقف اختيار کيا کہ اسانج 'آزادی اظہار رائے کے چيمپئن‘ نہيں بلکہ ايک 'عام مجرم‘ ہيں جنہوں نے حکومتی راز افشاں کر کے ان گنت لوگوں کی جانوں کو خطرے ميں ڈالا۔

اڑتاليس سالہ جوليان اسانج امريکی حکومت کو اٹھارہ مختلف جرائم ميں مطلوب ہيں۔ جرائم ثابت ہونے پر انہيں کئی دہائيوں کی قيد ہو سکتی ہے۔ امريکی حکام حوالگی کے بعد اسانج پر امريکا ميں جاسوسی کا مقدمہ چلانا چاہتے ہيں، جس کی حد سے حد سزا 175 برس ہے۔ استغاثہ کے مطابق اسانج نے امريکی فوج کی ايک انٹيليجنس اہلکار چيلسی ميننگ کے ساتھ مل کر پينٹاگون کے ايک کمپيوٹر کو ہيک کيا۔ اسانج پر الزام ہے کہ انہوں نے اسی کمپيوٹر سے عراق اور افغانستان ميں جنگوں کے حوالے سے کئی اہم خفيہ دستاويزات چوری کيے اور پھر ان کو جاری کيا۔

England Proteste in London gegen Auslieferung Julian Assange
تصویر: Reuters/P. Nicholls

کمرہ عدالت ميں جيمز لوئيس نے کہا کہ وکی ليکس کی سرگرميوں سے نہ صرف امريکی انٹيليجنس ذرائع کو خطرہ لاحق ہوا بلکہ ان تمام افراد کو بھی جن کا نام خفيہ دستاويزات ميں کہيں نہ کہيں درج تھا اور يہ ايک انتہائی خطرناک پيش رفت تھی۔ لوئيس نے يہ بھی کہا کہ لندن کے 'وولوچ کراؤن کورٹ‘ ميں يہ ايک غير معمولی عدالتی کارروائی ہے اور اسانج کے مجرم يا بے گناہ ہونے کا فيصلہ، اس عدالت نے نہيں بلکہ امريکا ميں ہونا ہے۔

اس کے برعکس اسانج کا کہنا ہے کہ وہ ايک صحافی کے طور پر کام کر رہے تھے اور اس مد ميں آئين کی پہلی شق انہيں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ ان کے مطابق منظر عام پر آنے والے دستاويزات امريکی فوج کی نا انصافيوں پر سے پردہ اٹھاتے ہيں۔

دريں اثناء لندن ميں اس موقع پر عدالت کے باہر اسانج کے حامیوں کا احتجاج بھی جاری رہا۔

صحافتی اداروں و شہری حقوق کے ليے سرگرم تنظيموں کے مطابق جوليان اسانج کے خلاف الزامات آزادی صحافت کے ليے ايک خطرناک پيش رفت ہے۔ 'رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ اور ايمنسٹی انٹرنيشنل جيسی تنظيميں اس پر شديد تحفظات رکھتی ہيں۔  اسانج کو لندن ميں سن 2010 ميں سويڈن کی درخواست پر گرفتار کيا گيا تھا۔ سويڈن ميں اسانج جنسی زيادتی کے الزام پر پوچھ گچھ کے ليے مطلوب تھے تاہم انہوں نے وہاں جانے سے انکار کيا۔ پھر سن 2012 ميں اسانج نے لندن ميں ايکواڈور کے سفارت خانے ميں پناہ لے لی۔ اپريل سن 2019 ميں  انہیں  سفارت خانے سے باہر نکنا پڑا  اور باہر نکلتے ہی انہيں حراست ميں لے ليا گيا۔

ع س / ع ا، نيوز ايجنسياں