جورجیا سے روسی افواج کا انخلاء آج سے شروع
18 اگست 2008جورجیا سے روسی دستوں کے انخلاء کا عمل آج دوپہرسےشروع ہورہا ہے۔ روسی صدر دمتری مید وی ایدیف نے اعلان کرتے ہوئے کہا کہ صرف وہی دستے جورجیا سے واپس آئیں گے جوجنگ شروع ہونے کہ جورجیا میں تعینات امن فوج کی مدد کے لئے وہاں روانہ کئے گئے تھے۔ فرانس کے تیار کردہ جنگ بندی کے معاہدے میں جورجیا کے روسی افواج کے فوری انخلاء کی شرط رکھی گئی تھی اسی وجہ سے روسی صدرنے یورپی یونین کے موجودہ صدرملک فرانس کے سربراہ نکولا سارکوزی کو ٹیلیفون کے ذریعے اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا۔ سارکوزی نے روسی فیصلے کو سراہتے ہوئے روس کو جنگ بندی معاہدے کی پاسداری نہ کرنے کی صورت میں سنگین نتائج سے خبردار کیا ہے۔ سارکوزی نے کہا اگر روس نے جنگ بندی معاہدے پر عمل نہ کیا تو یورپی یوینن کے ساتھ اس کے تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے۔ ساتھ ہی فرانسیسی سربراہ نے کہا کہ ایسی صورت میں یورپی یونین کونسل کا غیر معمولی اجلاس بھی بلایا جا سکتا ہے۔
دوسری جانب جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جورجیا میں صدر مشائیل ساکاشولی سے ملاقات کی ۔ جس کے بعد میرکل نے روس سے فوری طور پرجورجیا سے اپنی افواج کو واپس بلانے کا مطالبہ کیا۔ میرکل نے جورجیا کو مغربی دفائی اتحاد نیٹومیں شمولیت کے حوالے سے جرمن تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ میرکل کے مطابق جورجیا ایک آزاد اورخود مختار ملک ہے اورخود مختار ریاستیں نیٹو کے رکن ممالک کے ساتھ مل کر یہ فیصلہ کرسکتی ہیں کہ وہ کب اتحاد میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ ساتھ ہی میرکل نے بحران زدہ خطے میں فوری طورپر بین الاقوامی مبصرین کوتعینات کرنے پر بھی زوردیا۔
اس سے قبل امریکی صدرجارج بش نے روس کے اس اقدام کوسراہتے ہوئے کہا کہ قفقاز تنازعے میں یہ ایک مثبت پیش قدمی ہے۔ ساتھ ہی بش نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اب اس معاہدے کی پاسداری کی جائے۔جورجیا کے بندرگاہی شہر Poti اورجنوبی اوسیتیا کی سرحد سے ملحقہ شہر Gori میں روسی افواج کی موجودگی دیکھی جا سکتی ہے اور گوری سے جورجیا کے دارلحکومت تبلیسی جانے والے راستے پر بھی روسی دستوں نے دو چوکیاں قائم کی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب جورجیا کی حکومت روسی افواج پر لوٹ مارکا الزام عائد کر رہی ہے۔ گزشتہ کئی دنوں سے جورجیا، روسی حکام سے شہر Gori کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کے لئے مذاکرات کررہا ہے۔ تا کہ ہزاروں افراد جو جنگ کے دوران اپنا گھر بارچھوڑنے پرمجبور ہوئے واپس گھروں کو لوٹ سکیں ۔