1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہشمالی امریکہ

جو بائیڈن نے لائڈ آسٹن کو وزیر دفاع کیوں نامزد کیا؟

9 دسمبر 2020

امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے سبکدوش فوجی جنرل لائڈ آسٹن کو وزادت دفاع کے عہدے کے لیے باضابطہ نامزد کردیا ہے۔ اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے بائیڈن نے کہا کہ انہیں آسٹن پر پورا اعتماد ہے۔

https://p.dw.com/p/3mSU2
General Lloyd J. Austin III
تصویر: picture-alliance/dpa

امریکا کے نو منتخب صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز اپنی کابینہ میں وزارت دفاع کے عہدے کے لیے لائڈ آسٹن کے نام کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ اس سے پہلے میڈیا کے میں یہ خبر پہلے آچکی تھی۔ 67 سالہ لائڈ آسٹن ریٹائرڈ فوجی جنرل ہیں اور اگر کانگریس سے ان کے اس عہدے کی منظوری مل جاتی ہے تو وہ امریکا کے پہلے سیاہ فام وزیر دفاع ہوں گے۔

بائیڈن نے اس کا اعلان کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا، "ان کی پوری زندگی خدمات سے سرشار ہے، وائٹ ہاؤس میں اور بیرون ملک ہم نے فوجیوں کے ساتھ جو وقت ایک ساتھ گزارا، اس پوری مدت کے دوران آسٹن نے شاندار قیادت، کردار اور کمانڈ  کا مظاہرہ کیا ہے۔" بائیڈن نے اپنی کابینہ میں تنوع کا وعدہ کیا تھا اور اگر یہ تقرری کامیاب ہوتی ہے تو اس سمت میں یہ اہم پیش رفت ہوگی۔

لائڈ آسٹن ایک ملٹری آفیسر رہے ہیں اور چونکہ امریکا میں ایک بڑا طبقہ اس بات کا حامی ہے کہ پینٹاگون میں فوجی اور سویلین قیادت میں ایک واضح  فرق بہت ضروری ہے، اس لیے کانگریس میں اس فیصلے کی مخالفت کے امکان بہت زیادہ ہیں۔

لیکن جو بائیڈن نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا کہ وہ ریٹائرڈ فوجی جنرل پر اعتماد کرتے ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ "وہ دباؤ میں کس طرح اپنا رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔ جب داعش ایک خطرے کے طور پر ابھری تو صدر اوباما اور میں نے ان پر بھروسہ کیا اور انہوں نے ہماری اچھی قیادت کی۔ اور اب میں دوبارہ وزیر دفاع کے طور پر ان کی طرف دیکھ رہا ہوں۔"

امریکی الیکشن، صورتحال کیا رنگ اختیار کرے گی؟

ماضی کا شاندار ریکارڈ

سبکدوش فوجی جنرل لائڈ آسٹن نے 41 برس تک فوج میں خدمات انجام دیں ہیں جبکہ اوباما کے پہلے دور اقتدار میں انہوں نے عراق میں اتحادی فوج کی قیادت بھی کی تھی۔ اس وقت بائیڈن امریکا کے نائب صدر تھے۔

وہ 2012 ء میں امریکا کے پہلے سیاہ فام نائب فوجی سربراہ کے عہدے پر بھی فائز رہے جو امریکی فوج میں دوسرا سب سے اہم عہدہ ہے۔ بعد میں انہیں امریکی سینٹرل کمانڈ کی ذمہ داری بھی سونپی گئی اور عراق اور شام میں شدت پسند تنظیم داعش کو شکست دینے کے لیے جنگ بھی انہیں کی قیادت میں لڑی گئی۔

سن 2003 میں جب بش سینیئر نے پہلی بار عراق پر حملہ کیا تھا تو اس وقت آسٹن تھرڈ انفنٹری ڈیویژن کے اسسٹنٹ کمانڈر تھے اور اس میں بھی ان کا اہم کردار تھا۔ 2011 ء میں عراق سے امریکی فوج کا انخلاء بھی انہیں کی نگرانی میں ہوا تاہم وہ امریکی انتظامیہ کے اس فیصلے سے متفق نہیں تھے۔

نامزدگی کو کانگریس میں روکارٹوں کا سامنا

توقع یہ تھی کہ اس بار وزیر دفاع کا عہدہ مشیل فلورنی سنبھالیں گی اور پہلی بار کوئی خاتون پینٹاگون کی سربراہ ہوں گی۔ تاہم اس دوڑ میں لائڈ آسٹن کو مشیل فلورنی کے مقابلے میں کامیابی ملی ہے۔

قانونی طور پر فوج میں سروس کرنے والے کسی فوجی کو بھی وزارت دفاع کی ذمہ داری سونپی جا سکتی ہے لیکن روایتاً ایسا بہت کم ہوا ہے اور اب تک صرف دو فوجی افسر ہی اس عہدے پر فائز ہوئے ہیں۔ اس میں سے ایک تو جیمز میٹس ہیں جنہوں نے صدر ٹرمپ کے ساتھ بطور وزیر دفاع کام کیا۔ قانون کے مطابق اس عہدے پر فوجی کیبجائے سولین افسر کی تقرری زیادہ بہتر ہے اس لیے آسٹن کی نامزدگی  کے لیے کانگریس سے منظوری ضروری ہوگی۔

سابق فوجی افسران کے لیے وزارت دفاع کا عہدہ سنبھالنے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ فوج سے سبکدوش ہوئے انہیں کم سے کم سات برس ہوگئے ہوں جبکہ آسٹن 2016 ء میں ہی ریٹائر ہوئے تھے۔

 (اے پی، روئٹرز)  ص ز/ ک م

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں