1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
آزادی صحافت

'جنہوں نے تشدد کروایا، انکوائری بھی وہی دیکھ رہے ہیں'

28 جون 2020

بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں پچھلے دنوں سکیورٹی اہلکاروں نے دو صحافیوں کو حراست میں کر بیہمانہ تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس واقعے کو دس روز ہونے کو آئے لیکن بظاہر کسی اہلکار کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ 

https://p.dw.com/p/3eS6v
Balochistan | Journalist | Matteen Achakzai
تصویر: ChamanPressClub

چمن کے صحافیوں سید علی اور عبدالمتین اچکزئی کا کہنا ہے کہ مقامی انتظامیہ اور فرنٹیئر کور کے اہلکار وں نے انہیں بات چیت کے بہانے بلایا، لیکن حراست میں لےکر تشدد کروایا۔ ان کے ساتھ اس سلوک کے خلاف کوئٹہ میں صحافیوں نے احتجاج کیا لیکن ابھی تک کسی اہلکار یا افسر کے خلاف کوئی خاص ایکشن نہیں لیا گیا۔ 

صحافتی تنظیموں کا کہنا ہے کہ  حکومت اس معاملے میں سنجیدہ نہیں اور صوبے میں شہریوں کے خلاف جاری باقی زیادتیوں کی طرح اس معاملے کو بھی دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔         

گرفتاری اور ٹارچر

سید علی اچکزئی سماء ٹی وی کے نمائندے جبکہ عبدالمتین اچکزئی پشتو ٹی وی چینل خبر نیوز سے وابستہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں انیس جون کو فرنٹیئر کور (ایف سی) نے اپنے مقامی دفتر میں طلب کیا تھا۔ جب وہ وہاں پہنچے تو انہیں بغیر کچھ بتائے گرفتار کرلیا گیا۔

سید علی اچکزئی نے بتایا کہ، "ہماری آنکھوں پر سیاہ پٹیاں باندھ کر ہمیں لیویز کے حوالے کیا گیا۔ رات گئے لیویز اہلکاروں نے ہمیں لے جا کر مچھ سینٹرل جیل میں ڈال دیا۔" دونوں صحافیوں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر کی شق تین اور سولہ کے تحت زیر حراست رکھا گیا۔

سید علی نے بتایا کہ لیویز کے یونٹ کوئک رسپانس فورس  کے اہلکاروں نے راستے میں انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا اوران سے دہشت گردوں جیسا سلوک کیا۔

انہوں نے کہا، "وہ ہمیں پی ٹی ایم والے کہہ کر مارتے رہے ۔ ہم نے انہیں بتایا بھی کہ ہم سیاسی ورکر نہیں بلکہ صحافی ہیں لیکن انہوں نے ایک نہیں سنی اور راستے میں تشدد کرتے رہے۔"

صحافی تنظیموں کی طرف سے مذمت اور احتجاج کے بعد ان دونوں صحافیوں کو اکیس جون کو رہا کردیا گیا۔

چمن میں سماء ٹی وی کے نمائندے سید علی اچکزئی
تصویر: ChamanPressClub

کوئی زیادتی نہیں ہوئی

قلعہ عبداللہ کے ڈپٹی کمشنر بشیر احمد بڑیچ نے سکیورٹی اہلکاروں کا دفاع کیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ان کا اصرار تھا کہ، چمن میں "صحافیوں کے خلاف کوئی غیرقانونی کارروائی نہیں کی گئی۔"

انہوں نے کہا کہ بعض لوگ صحافت کی آڑ میں سمگلنگ میں ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سید علی نامی شخص  سرکاری محکمے پی ایچ ای کا ملازم ہے اور بلاوجہ سرکاری اداروں پر الزامات عائد کرتا رہا ہے۔ انہیں نے کہا کہ اسے بار بار سمجھانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن  اس کی بے بنیاد تنقید کی وجہ سے سرکاری اداروں کے ساکھ کو نقصان پہنچ رہا تھا۔

صحافی عبدالمتین اچکزئی
تصویر: ChamanPressClub

اصل مسئلہ بارڈر اسمگلنگ پر رپوٹنگ

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے سید علی نے کہا کہ انتطامیہ کے الزامات حقائق سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔  انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں سب سے بڑا مسئلہ بارڈر پر اسمگلنگ کا ہے، جس سے روزانہ کروڑوں کا مال سرکاری اہلکاروں کی جیب میں جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان معاملات پر رپوٹنگ کی اجازت نہیں لیکن ہم پھر بھی اس کرپشن اور بد انتظامی پر آواز اٹھاتے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاک افغان سرحد پر انتظامیہ کی ملی بھگت سے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ جا رہی ہے، جس سے قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ انہوں نے چمن بارڈر پر کورونا سے متعلق ناکافی سہولیات اور سرکاری غفلت کی بھی نشاندہی کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ان کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے وہ طاقت ور حکام کی طرف سے پیغام ہے کہ ایسا دوسروں کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے۔

Frontier Corps in Pakistan
تصویر: DW/A.-G.Kakar

جنگل کا قانون

صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ودآؤت بارڈرز اور پاکستان یونین آف جرنلسٹس کی طرف سے احتجاج کے بعد بلوچستان حکومت نے اس معاملے کی انکوائری کا حکم دے دیا۔ لیکن کئی دن گذر جانے کے بعد حکومت نے تشدد کرنے والوں اہلکاروں اور ان کے افسران کے خلاف کسی کارروائی کی تفصیلات نہیں جاری کیں۔   

بلوچستان یونین آف جرنلسٹس ( بی یو جے ) کے صدر ، ایوب ترین کہتے ہیں کہ اس معاملے میں انصاف کے تقاضوں کو تاحال پورا نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ چمن انتظامیہ کو اگر  صحافیوں کی رپورٹنگ کے حوالے سے شکایت تھی بھی تو انہیں متعلقہ فورم سے رجوع کرنا چاہیے تھا ۔

ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے ایوب ترین نے کہا، "یہاں صحافیوں کو حقائق منظرعام پر لانے سے روکنے کے لیے بڑی رکاوٹیں ہیں ۔صحافی بار بار تشدد کا نشانہ بنتے رہے ہیں۔ چمن کا یہ واقعہ بھی اسی خطرناک روش کا تسلسل ہے۔"

صحافی سید علی اچکزئی نے کہا کہ "تحقیقاتی کمیٹی کا قیام یوں تو خوش آئیند ہے لیکن ہمیں انصاف کی امید نہیں۔"

ان کا کہنا ہے کہ سرکاری اہلکارو‌ں‌ نے گرفتاری کے وقت ان سے موبائل فون اور جو دیگر ذاتی سامان چھین لیا تھا وہ  ابھی تک واپس نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ جن افسران کی ایماء پر ہمیں گرفتار کرکے تشدد کرایا گیا ایک ہفتے سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود ان سے تاحال کوئی پوچھ گچھ نہیں کی گئی۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ، "تحقیقاتی رپورٹ بھی انہی افسران کی ایماء پر تیار کی جائے گی۔ جب ملزم ہی منصف ہوں گے تو انصاف کے تقاضے کیسے پورے ہوں گے؟"