جنوری سے یورپی یونین کا صدر ملک بحران زدہ یونان
3 دسمبر 2013یونان ابھی بھی اپنی پوری کوششوں میں ہے کہ گزشتہ چار سال سے جاری اقتصادی بحران سے جلد از جلد نکل سکے۔ 2014ء کے آغاز پر یورپی یونین کی صدارت چھ ماہ کے لیے یونان کو منتقل ہو جائے گی، یہ تو پہلے ہی سے طے تھا۔ لیکن نئی بات یہ ہے کہ چند ہی ہفتوں بعد ایتھنز حکومت کو منتقل ہو جانے والی ان ذمہ داریوں سے قبل نائب وزیر خارجہ دِیمتریس کُورکُولاس نے کہا ہے کہ یونان کے لیے یہ ششماہی مالیاتی حوالے سے نظم و ضبط سے عبارت اقدامات کا مظہر ہو گی۔
یونان 1981ء میں یورپی یونین میں شامل ہوا تھا۔ تب سے اب تک یہ پانچواں موقع ہو گا کہ یہ ملک یورپی یونین کی صدارت کے فرائض انجام دے گا۔ نئے سال کے پہلے نصف حصے کے دوران اپنی ان ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ایتھنز حکومت یورپی وزراء کی کم از کم 14 کانفرنسوں اور قریب 120 دیگر اجلاسوں کی میزبانی کرے گی۔
یونان کو ان تمام یورپی اجلاسوں کے انعقاد پر قریب 50 ملین یورو خرچ کرنا پڑیں گے لیکن ماضی میں بوسنیا میں یورپی کمیشن کے مشن کے سربراہ کے فرائض انجام دینے والے موجودہ نائب وزیر خارجہ کُورکُولاس کو امید ہے کہ ان اخراجات کا ایک حصہ واپس یونانی خزانے میں پہنچ جائے گا۔
اقتصادی انحطاط کا سامنا کرنے والے یونان کے لیے اگلے چھ ماہ اس لیے بھی ایک بڑا چیلنج ہوں گے کہ تب نہ صرف مئی میں یونین کے رکن ملکوں میں یورپی پارلیمانی انتخابات کرائے جائیں گے بلکہ یونان میں ان بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی ہو گا، جن میں دائیں بازو کے نئے نازیوں کی پارٹی کو کافی زیادہ عوامی حمایت بھی مل سکتی ہے۔ اس وقت دائیں بازو کے انتہا پسندوں کی اس پارٹی کے کئی سرکردہ ارکان کے خلاف مبینہ جرائم کے سلسلے میں چھان بین جاری ہے۔
ایتھنز حکومت اس وقت تین بڑے بین الاقوامی قرض دہندگان کے ساتھ انتہائی اہم نوعیت کے مذاکرات میں بھی مصروف ہے تاکہ اسے اربوں یورو کے وہ قرضے دستیاب ہو سکیں جو منظور تو ہو چکے ہیں لیکن ابھی مہیا نہیں کیے گئے۔ یہ تین بڑے قرض دہندگان یورپی یونین، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ اور یورپی مرکزی بینک ہیں۔
اس پس منظر میں نائب وزیر خارجہ دِیمتریس کُورکُولاس کہتے ہیں کہ یونان کو ابھی مالیاتی بحران کا سامنا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یونین کی صدارت کے چھ ماہ کے دوران ایتھنز حکومت اپنی جملہ یورپی ذمہ داریاں بخوبی انجام دے گی۔