1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی چینی سمندر کا تنازعہ، امریکہ بھی پانی میں کود پڑا

24 جولائی 2011

امریکہ نے جنوبی چینی سمندر کے تنازعے کو عالمی مسئلہ قرار دیا ہے۔ دنیا کی آدھی تجارت اسی سمندری راستے سے ہوتی ہے۔ چین آسیان ممالک کے ساتھ اپنے اس تنازعے کو بیرونی مداخلت کے بغیر حل کرنا چاہتا ہے۔

https://p.dw.com/p/122ZP
تصویر: US Navy

امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے تنازعہ کے حل کے لیے مستقبل میں چین اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کے درمیان مذاکرات پر رضامندی کا خیر مقدم کیا ہے۔

انڈونیشیا میں ایشیائی سکیورٹی کانفرنس میں حصہ لینے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے کہا ، ’’ہم سمجھتے ہیں کہ یہ پہلا اہم قدم ہے لیکن صرف پہلا قدم۔‘‘ کلنٹن نے کہا کہ جنوبی چینی سمندر کے تنازعے کو حل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنا ہوں گے۔ چین اس پورے سمندری خطے پر اپنا حق جتاتا ہے جبکہ برونائی، ملائیشیا، فلپائن، تائیوان اور ویتنام اس پر اپنا حق ظاہر کرتے ہیں۔

Gasfeld in Ostchinesisches Meer Streit China Japan
فلپائن اور ویتنام نے وسائل سے مالا مال اس سمندری علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا تھاتصویر: AP/Kyodo News

کلنٹن نے کہا، ’’جنوب مشرقی ایشیائی ممالک اور چین کے درمیان اس بارے میں مزید بات چیت کی ضرورت ہے اور پوری دنیا کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ ہم تمام چاہتے ہیں کہ یہ تنازعہ مزید طول نہ پکڑے۔‘‘

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ دنیا کی آدھی تجارت اسی جنوبی چینی سمندر کے راستے ہوتی ہے اور اس لیے بین الاقوامی برادری کو اس سے وابستہ تنازعات کے تصفیے میں شامل ہونا چاہئے۔ چین اس معاملے میں کسی بھی بیرونی ملک کی دخل اندازی کو مسترد کرتا آیا ہے۔ چین کا کہنا تھا کہ وہ تمام ممالک کو آزادانہ نقل و حمل کی اجازت دیتا ہے اور اس پر حق جتانے والے ممالک کے ساتھ خود یہ مسئلہ حل کرنا چاہتا ہے۔

Karte Ostchinesisches Meer
دنیا کی آدھی تجارت اسی جنوبی چینی سمندر کے راستے ہوتی ہےتصویر: DW

امریکی وزیر خارجہ نے کہا کہ تمام علاقائی دعویداروں کا واضح طور پر تعین اور تنازعے کا حل اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ہونا چاہیے۔ چین کے علاوہ باقی ممالک بھی اس امریکی موقف کے حق میں ہیں لیکن چین تاریخی نقشوں کی بنیاد پر اس پورے سمندری خطے کو اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔

گزشتہ بدھ کو انڈونیشیا کے بالی جزیرے میں 10 ارکان پر مشتمل جنوبی مشرقی ایشیائی ممالک کی تنظیم آسیان اور چین نے ایک اجلاس میں تنازعہ کے حل کے لیے مذاکرات پر اتفاق کیا ہے۔ چین اور کچھ آسیان ملکوں نے اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے کشیدگی دور ہوگی۔ دوسری جانب فلپائن کا کہنا ہے کہ اس کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اجلاس میں متنازعہ خطے کی واضح نشاندہی نہیں کی گئی۔

حالیہ چند مہینوں میں فلپائن اور ویتنام نے وسائل سے مالا مال اس سمندری علاقے میں چین کی بڑھتی ہوئی مداخلت پر ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انہوں نے چین پر اپنے ماہی گیروں اور تیل کی تلاش کرنے والوں کو پریشان کرنے کا الزام لگایا تھا۔

رپورٹ: امتیاز احمد

ادارت: عصمت جبیں