1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا کی خواتین لیڈر، ایلیٹ کلاس اور پسماندہ عورتیں

18 جولائی 2022

گزشتہ سال کملا ہیرس امریکہ کی پہلی خاتون نائب صدر اور اعلیٰ ترین خاتون عہدیدار بنیں۔ اس موقع پر ان کا ہندوستانی خاندانی پس منظر توجہ کا مرکز بنا اور سیاست میں خواتین رہنماؤں کے کردار پر بات چیت شروع ہوئی۔

https://p.dw.com/p/4EHos
DW Urdu Blogerin Allia Bukhari
تصویر: Privat

جنوبی ایشیا میں خواتین کسی حد تک اہم عہدوں پر فائز رہی ہیں، اس کے باوجود  کہ یہاں کے معاشرے پدرسری کا شکار ہیں۔ اس خطے کو دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم منتخب کرنے کا اعزاز حاصل ہے اور یہ تب ہوا، جب 1960ء میں سریما بندرا نائیکے کو جمہوری طور پر سری لنکا کی وزیر اعظم منتخب کیا گیا۔ اسی طر ح بے نظیر بھٹو، اندرا گاندھی، خالدہ ضیاء،  شیخ حسینہ اس خطے کی کچھ بااثر اور مقبول ترین رہنما ہیں یا رہی ہیں۔

سیاسی عمل اور قائدانہ کردار میں خواتین کی شمولیت سے معاشی ترقی، اچھی حکمرانی اور جمہوریت کو براہ راست فائدہ پہنچتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں عالمی سطح پر اس حوا لے سے مثبت رجحان دیکھنے کو ملا۔ ایک امریکی مشاورتی گروپ کے مطابق دنیا بھر کے قومی پارلیمانوں میں خواتین کی نمائندگی کی شرح 1998ء میں 11.8 فیصد سے بڑھ کر 2008ء میں 17.8 فیصد ہوئی اور  2018ء میں 23.5 فیصد تک پہنچ گئی۔

 یکم ستمبر 2021ء  تک دنیا کے 24 ممالک میں 26 خواتین بطور سربراہان مملکت و  حکومت خدمات انجام دے رہی تھیں۔ اقوام متحدہ کے خواتین کے حقوق کے ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ تعداد صنفی برابری کے لیے ابھی بھی کم ہے۔

لیکن قابل افسوس بات یہ ہے کہ حال ہی میں صنفی مساوات میں پاکستان کو دنیا کا دوسرا بدترین ملک قرار دیا گیا ہے۔

جنوبی ایشیائی ممالک میں پدرانہ اقدار اور سماجی اصول مردوں اور لڑکوں کو مواقع تک رسائی اور وسائل پر کنٹرول کا استحقاق دیتے ہیں۔  لیکن کیا وجہ ہےکہ اس خطے میں خواتین لیڈروں کی مثالوں کے باوجود ایک عام عورت با اختیارنظر نہیں آتی؟ ساؤتھ ایشیا میں خواتین اقتدار کے ایوانوں اور اہم کلیدی عہدوں پر رہیں ہیں لیکن وہاں کی عام عورت کی جھلک ان میں نہیں ملتی۔ ایک عجیب تضاد یہ بھی نظر آتا ہے کہ ان میں سے زیادہ تر بااثر خواتین کا تعلق ہمیشہ سے ایلیٹ کلاس، اشرافیہ  یا سیاسی خاندانوں سے رہا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ ان خواتین رہنماؤں کو صنفی امتیاز اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور صرف عورت ہونے کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا بھی پڑتا ہے لیکن ان کے ’’پریویلیج‘‘ سے بھی کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے علاوہ انہوں نے پدرانہ طرزِ عمل اور طریقوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی، جن کا ہر طرح سے نشانہ ان معاشروں میں مظلوم اور پسماندہ طبقات کی  عورتیں بنتی ہیں۔ ان ممالک میں نچلی سطح سے خواتین کی ٹھوس نمائندگی کی ضرورت ہے۔

اسی حوالے سے  ایک پاکستانی اسکا لر نے کہا تھا کہ اس کے باوجود کہ ان ممالک سے یہ رہنما دنیا میں اپنا مقام بناتی ہیں لیکن یہ ایک پدرسری تسلسل کے تحت ہی منظر عام پر آتی ہیں اور پھر  اپنے خاندان اور طبقے کی علامتی یا نمائندہ شخصیت ثابت ہوتی ہیں، جن کا مقصد خاندانی سیاست اور میراث کو فروغ دینا بن جاتا ہے۔ اسی تسلسل میں یہ عام خواتین یا  generality of women سے دور ہو جاتی ہیں۔

یہ رجحان یقیناً صرف خواتین تک ہی محدود نہیں ہے۔ سیاسی خاندانوں کے مرد، نامور سیاستدانوں کے بیٹے یا بھتیجے سیاسی میدان میں آگے آگے نظر آتے ہیں اور موروثی سیاست کو جاری رکھتے ہیں۔ یہ سلسلہ جنوبی ایشیا کی خصوصیت بن گیا ہے اور میرٹ کا گلا گھوٹنے کے برابر ہے۔

سیاسی خاندانوں کی طاقت کو کم کرنے کے لیے حقیقی معنوں میں خواتین کو بااختیار بنانے اور ان کی قیادت کو فروغ دینے کے لیے پسماندہ کمیونٹیز کی خواتین کی گورننس میں شرکت کی حوصلہ افزائی کرنا پڑے گی۔ اس کے لیے جنوبی ایشیا کے ممالک کو اپنی جمہوری کوششوں کو نئی طرح سے تعمیر اور شروع  کرنا چاہیے۔

برابری کی بنیاد پر خواتین کی شمولیت اور نمائندگی میں رکاوٹیں جنوبی ایشیا کے سماجی اور کچھ ثقافتی پہلوؤں کی وجہ سے ہیں۔ ایسے میں خواتین لیڈرز کا پدرسری روایات کے تسلسل کو برقرار رکھنا اور ان سے فائدہ اٹھانا مایوس کن رہا ہے۔

پدرانہ نظام سے لڑنے اور حقیقی معنوں میں عورت کو بااختیار بنانے کے لیے صرف خواتین رہنماؤں کا ہونا اور وہ بھی ایک مخصوص کلاس سے کافی نہیں ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ اس خطے میں خواتین کا سیاست میں ہونا اور آگے جانا بدقسمتی سے صرف ایلیٹ کلاس اور بااثر خاندانوں سے ہی منسلک ہو چکا ہے۔