1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنسی ہراسانی کے الزامات پر گوگل نے اڑتالیس ملازم برطرف کیے

26 اکتوبر 2018

سرچ انجن گوگل کے سربراہ نے کہا ہے کہ گزشتہ دو سالوں کے درمیان اس کمپنی نے جنسی ہراسانی کے الزامات کے سبب اپنے اڑتالیس ملازمین کو برخاست کیا ہے۔ گوگل کے بقول برطرف ہونے والوں میں تیرہ سینئیر عہدے دار بھی شامل ہیں۔

https://p.dw.com/p/37EXM
Google
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Spata

گوگل کے سی ای او سندر پچائی نے ایک بیان میں کہا، ’’حالیہ برسوں میں ہم کمپنی میں بہت سی تبدیلیاں لے کر آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اقدام صاحب اختیار اور اعلیٰ عہدوں پر فائز اہلکاروں کے نامناسب رویے کے خلاف سخت موقف اپنانا بھی ہے۔‘‘

پچائی کا یہ بیان امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کی جنسی ہراسانی کے حوالے سے ایک رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد سامنے آیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گوگل کے ایک ملازم کی جانب سے انڈروئیڈ کے خالق اینڈی روبن کو جنسی ہراسانی کے الزام میں نوے ملین ڈالر کی رقم بطور تاوان ادا کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

تاہم پچائی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ نکالے جانے والے کسی بھی ملازم کو کسی قسم کی رقوم ادا نہیں کی گئی ہیں۔ پچائی کے بقول، ’’ہم اپنے دفاتر کو محفوظ اور پُر سکون کام کی جگہ بنانے کے معاملے میں بے حد سنجیدہ ہیں۔ ہم اس بات کی یقین دہانی کرانا چاہتے ہیں کہ ہم جنسی ہراس اور نامناسب رویوں سے متعلق ملنے والی ہر ایک شکایت کا جائزہ لیتے ہیں۔ ہم تفتیش کرتے ہیں اور پھر کارروائی کرتے ہیں۔‘‘

Google CEO Sundar Pichai
گوگل کے سی ای او سندر پچائیتصویر: picture-alliance/San Diego Union-Tribune/TNS/J. Gibbins

سان فرانسسکو میں واقع سیلیکون ویلی، جہاں اعلی درجے کے ٹیکنالوجی ادارے بڑے پیمانے پر قائم ہیں، میں جنسی استحصال کی شکایات گزشتہ کچھ سالوں سے بڑا مسئلہ ہیں۔ اس ویلی میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق نوے فیصد خواتین کا کہنا تھا کہ  انہیں کام کے اوقات کے بعد یا پھر کانفرنسوں کے دوران جنسی طور پر ہراساں کیا گیا۔ سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ پینسٹھ فیصد خواتین کو جن اَن چاہے اور نامناسب جنسی رویوں کا سامنا کرنا پڑا وہ اُن کے باس کی جانب سے تھے۔

تاہم ایک طرف جہاں گوگل جیسی کمپنیاں یہ کہہ رہی ہیں کہ وہ اپنے ہاں ملازم خواتین کو ایسے جنسی رویوں سے محوظ رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں، وہیں خواتین کا کہنا ہے کہ یہ کافی نہیں ہے۔

ص ح / ع ب / نیوز ایجنسی